عمران خان بطور وزیر اعظم ناکام کیوں ہو رہے ہیں؟

مثالیت پسند وزیر اعظم عمران خان اپنی تمام تر خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود اس لئے ملک کو مسائل کی گرداب سے نکالنے میں ناکام ہیں کیونکہ وہ جلد باز او غصیلے ہیں۔ امور مملکت چلانے کے لئے دور اندیشی، معاملہ فہمی اور تدبر جیسی لازمی صلاحیتیں کپتان میں موجود ہی نہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ انہوں نے اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے جو نہ صرف خود چلے ہوئے کارتوس ہیں بلکہ کپتان کے اقتدار کی بنیادیں ہلانے میں بھی اپنا حصہ خوب ڈال رہے ہیں۔
سنیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ بی بی سی کے لیے اپنی تازہ تحریر میں لکھتے ہیں کہ کرکٹ ہیرو سے وزیر اعظم بننے تک کے سفر میں عمران خان نے اپنی ایمانداری اور اصول پسندی کا تاثر ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنتے ہی انھوں نے اپنے سے عمر میں بڑے خالہ زاد بھائی سٹائلش بلے بازماجد خان کو ٹیم سے نکال کر اپنی اصول پسندی کی دھاک بٹھا دی تھی۔ اسی اصول پسندی کا تسلسل چینی انکوائری سکینڈل میں جہانگیر ترین، مونس الہی اور اپنے دیگر ساتھیوں کے نام دینے میں نظر آتا ہے۔ 18 ماہ کی حکومت میں ان کی ایمانداری پر کوئی سوال نہیں اٹھا اور انھوں نے بھی مشکوک سودوں سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھا ہے۔ وزیر اعظم کی کرپشن کے خلاف جنگ اور پھر اس میں کسی مصلحت سے کام نہ لینا ان کی شخصیت اور شہرت کی پہچان بن چکی ہے۔ اسی طرح غریبوں سے ان کی محبت اور نام نہاد اشرافیہ سے ان کی نفرت بھی ان کی شخصیت کی مثبت علامتوں میں سے ہے لیکن عمران خان کی شخصیت میں بعض ایسی خامیاں بھی ہیں جو نہ صرف ان کی ذات بلکہ ملک کے لئے بھی مسائل کا سبب بنی ہوئی ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بطور وزیر اعظم پاکستان عمران خان معیشت کے پہیے کو چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے نہ ہی وہ تاجروں اور صنعت کاروں کو یہ اعتماد دے سکے ہیں کہ ملک کی فضا سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہے، یہی معاملہ طرز حکمرانی کا بھی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلی کا انتخاب نہ تو پاکستان کے اداروں کو پسند آیا اور نہ ہی اسے کسی بھی میرٹ پر پرکھا جا سکتا ہے۔ کابینہ پر کڑی نگرانی کے باوجود وزیر اعظم وہ نگاہ دور بین نہیں رکھتے جو جس کا کام اسی کو ساجھے کے تحت وزراء میں ذمہ داریاں تقسیم کر سکیں۔ وزیر اعظم عمران خان تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے نوجوان حامیوں اور اوور سیز ساتھیوں کو توقع تھی کہ وہ عدالتی، انتظامی اور سماجی اصلاحات کا آغاز کریں گے لیکن تاحال اس سمت میں ابتدائی پیش رفت تک بھی نہیں ہو سکی۔ نہ پٹواری اور تھانہ کلچر ختم ہوا، نہ رشوت اور سرخ فیتہ ختم کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ زراعت کا برا حال ہے۔ ترقیاتی بجٹ ختم کر دیے گئے ہیں۔ میڈیا 70 سال کے دوران کبھی اتنے بُرے حال میں گرفتار نہیں ہوا جتنے برے حال میں اب ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اکیلے رہنے سے عمران خان میں جو کمزوریاں پیدا ہو گئیں تھیں وہ بشریٰ عمران سے شادی کے بعد کافی حد تک دور ہو گئی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے گھر کے ماحول کو مذہبی اور روحانی بنا دیا ہے۔ بیگم بشریٰ عمران آزاد خیال اور غیر مذہبی وزرا کی سرگرمیوں سے بھی وزیر اعظم کو با خبر رکھتی ہیں۔ تاہم یہاں سوال پید اہوتا ہے کہ بشری بی بی کی کرامات کے باوجود حکومت پرفارم کیوں نہیں کر پا رہی۔ اس حوالے سے سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ عمران خان امور مملکت کی گہری گتھیوں کو ایک کھلاڑی کے چوکے یا چھکے کے ذریعے سلجھانا چاہتے ہیں مگر معیشت اور حکمرانی کا جال اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس کی گانٹھوں کو ٹھنڈے دل، گہری سوچ اور تدبر سے ہی کھولنا پڑتا ہے۔وزیر اعظم میں اپنے تاثر کو ٹھیک رکھنے اور اپنی سیاسی برتری قائم رکھنے کا جذبہ بہ درجہ اتم موجود ہے لیکن پوری قوم کے بیڑے کو اجتماعی طور پر پار لگانے کی صلاحیت پر ان کے ناقدین سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ گورننس گہرا کام ہے، اس کے لیے زیادہ گہرے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button