پی ٹی آئی مذاکرات کےلیے آتی تو ان کےلیے راستے کھل سکتے تھے : عرفان صدیقی

حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی آج مذاکرات کےلیے آتی تو ان کےلیے راستے کھل سکتے تھے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پریس کانفرنس کرتےہوئے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ مذاکراتی کمیٹی کا آج چوتھا سیشن تھا،ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کےچیمبر میں پی ٹی آئی کا انتظار کیا،اسپیکر کی جانب سے پیغام بھیجاگیا لیکن وہ نہیں آئے۔
رہنما مسلم لیگ ن سینٹر عرفان صدیقی پی ٹی آئی نے آج اس مذاکراتی عمل کو ختم کر دیا ہے جس کا انہوں نے خود آغاز کیا تھا، 5 دسمبر کو انہوں نے کمیٹی بنائی تھی،پھر یکےبعد دیگر 3 ملاقاتیں ہوئی تھیں، 42 دن کےبعد انہوں نے اپنے مطالبات پیش کیے تھےجس کے بعد ہم نے ان مطالبات پر صرف 7 دن مانگے تھے اور بڑا جامع کام کیا، غیر جانبدار قانونی ماہرین سے رائے لی اور کوشش کی کہ ان کےمطالبات کو زیادہ سے زیادہ قابل عمل بناسکیں، ہماری توجہ اس پر مرکوز رہی۔
سینٹر عرفان صدیقی کاکہنا تھاکہ ہم نے دیکھاکہ کس حد تک مطالبات مان سکتے ہیں،ہم نے جواب میں بڑی گنجائش چھوڑی تھی آج آجاتے تو ان کےلیے راستے کھل سکتے تھے،پی ٹی آئی نے کمیٹی میں آنےکا وعدہ کیوں توڑا، کمیٹی وزیر اعظم نے بنائی ہے،وزیر اعظم ہی تحلیل کریں گے،ہماری طرف سےرابطہ نہیں ہوگا اسپیکر رابطہ کر سکتے ہیں۔
عرفان صدیقی نے کہاکہ ہم نے فیصلہ کیا ہےکہ اپنے جواب کی تفصیلات جاری نہیں کریں گے،کیوں کہ کمیٹی کا کمیٹی سے معاملہ تھا،اگر وہ آتے تو ہم اپنا جواب ان کے سامنے رکھتے،وہ اس پڑھتے اور جائزہ لیتے اور جن نکات پر انہیں اعتراض انہیں اٹھاتے یا اپنے نکات شامل کرتےتو پھر شاید کچھ معاملات بہتر ہوجاتے یا پھر ہم نے ان کےمطالبات اور اپنے جواب پر ایک اور میٹنگ کرلیتے کہ بات آگے بڑھنی ہے یا نہیں بڑھنی کیوں کہ ان کی 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن برقرار ہے۔
انہوں نےکہا کہ چونکہ پی ٹی آئی تشریف نہیں لائی اس لیے مذاکرات کا سلسلہ عملاً ختم ہو چکا ہے،ہماری کمیٹی ابھی قائم ہے،ہم اسے تحلیل نہیں کیا،یہ کمیٹی 31 جنوری تک موجود رہےگی،اگر اس دوران پی ٹی آئی حکومت سے رابطہ کرتی ہےتو ہماری کمیٹی 31 جنوری سے پہلے پہلے ان کےساتھ بیٹھ جائےگی اور اگر وہ 31 جنوری کےبعد بھی یہ عمل جاری رکھنا چاہیں تو ہم جاری رکھیں گے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نےکہاکہ پی ٹی آئی نے 28 تاریخ سے 5 دن پہلے 23 جنوری کو فیصلہ کرلیا اور یکطرفہ طور پر اس کا اعلان بھی کردیا،اصل چیز یہ تھی کہ وہ اس سلسلے کو ختم کرنا چاہتی تھی،ان کی کوئی اور ترجیحات اور حکمت عملی ہوگی جو ہمیں معلوم نہیں ہے، انہوں نے جس عمل کو شروع کیاتھا اسے خود ہی سبوتاژ کر دیا۔
لیگی سینیٹر عرفان صدیقی نےکہاکہ ہم نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا،ادھر سے سول نافرمانی کی تحریک چلی، پیسے نہ بھیجنے کا کہاگیا، خطرنات ٹوئٹس آئے، آرمی چیف اور مسلح افواج پر حملےکیے گئے،ہمارے وزیراعظم کو گالیاں دی گئیں، ہم نے اسے بھی برداشت کرلیا،ہم نے کسی چیز کو جواز نہیں بنایا، ٹوئٹس کا گلا بھی نہیں منایا، سول نافرمانی تحریک ملتوی کرنےکی درخواست بھی نہیں کی۔
مذاکرات کا اس وقت کوئی چانس نہیں : بیرسٹر علی ظفر
انہوں نےکہا کہ ہم بڑے سلیقے کےساتھ مذاکرات کے طریقہ کار کے تحت آگےبڑھتے رہے لیکن انہوں نے آج یہ طرز عمل اختیار کر کے اسپیکر کی بھی توہین کی ہے جس سےرابطہ کرکے انہوں نے وزیر اعظم کے ذریعے یہ کمیٹی بنوائی تھی،ہماری بھی بے توقیری کی ہے اور جمہوری روایت کو بھی نقصان پہنچایاہے۔
عرفان صدیقی نے واضح کیاکہ حکومتی کمیٹی اب نہ پی ٹی آئی سے مطالبہ کر رہی ہےکہ وہ تشریف لائیں،نہ ان کا انتظار کر رہی ہےکہ وہ تشریف لائیں اور ان کے پاس کوئی پیغام لے کر جائیں گےکہ وہ تشریف لائیں، ہاں اگر وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتےہیں تو ہم غور کریں گےکہ ہمارا ردعمل کیا ہوگا۔
ان کاکہنا تھاکہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی پی ٹی آئی کا انتظار کرناچاہتی ہے تو الگ بات ہے،انکار کے باعث کوئی گنجائش نہیں رہتی، مذاکرات کے راستےہمشیہ کھلے رکھنے چاہیں، مذاکرات کےراستے بند کرنا جمہوریت کی روح کےخلاف ہے۔