PTIکا اقتدار کے ایوانوں سے مکمل صفایا کیسے ہوا؟

قومی اسمبلی سے استعفوں، پنجاب اور کے پی اسمبلی تحلیل کرنے اور آزاد کشمیر میں بغاوت کے بعد اب گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی خالد خورشید کے عدالت سے نااہل ہو جانے کے بعد تحریکِ انصاف ملک میں اقتدار سے مکمل طور پر باہر ہو چکی ہے۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومتیں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں برقرار رہیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کو 11 اپریل کو عدلیہ کے بارے میں تنقید پر مبنی بیان دینے پر کشمیر کی ہائی کورٹ نے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے بعد وہاں پی ٹی آئی میں بغاوت ہو گئی اور تحریک انصاف اپنا امیدوار لانے میں ناکام رہی۔

اس کے بعد صرف گلگت میں تحریک انصاف کی حکومت باقی بچی تھی۔ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کے وزیراعلٰی خالد خورشید تھے۔ جب عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا تو اس بھی خالد خورشید کافی سرگرم دکھائی دیے۔ زمان پارک لاہور کے باہر ہونے والی تحریک انصاف کی احتجاجی سرگرمیوں میں بھی خالد خورشید نمایاں نظر آتے رہے۔ تاہم اب 4 جولائی کو گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں خالد خورشید کا نااہل قرار دے دیا ہے۔

اس پیشرفت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی وزیراعظم یا وزیراعلٰی کو عدالتی فیصلے کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا ہو۔ تاہم سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کی سیاسی صورت حال میں تبدیلی کا ملک کی مجموعی سیاست پر کچھ زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔

سینیئر تجزیہ کار زاہد حسین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی کی عدالت سے نااہلی سے ملکی سیاست پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔‘ ’گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت تھی لیکن اس کا ملکی سیاست میں کوئی کردار نہیں تھا۔ اس وقت جو معاملہ عمران خان کو درپیش ہے اس نئی صورت حال سے اس میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی۔‘ ان کے مطابق ’جب عمران خان کے احتجاج کی سیاست کا فیصلہ کیا تو گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی کافی سرگرم نظر آتے رہے لیکن ان کی حکومت ختم ہونے سے پاکستان کی صورت حال میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے نزدیک ’اس وقت ملک میں جس قسم کی سیاست ہو رہی ہے اس کا محور طاقت ہے، جس کے بل پر نظام چلایا جا رہا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اب یہ مجھے معلوم نہیں کہ ان کی ڈگری اصلی ہے یا جعلی، لیکن جس طرح سے انہیں نااہل کیا گیا، یہ پورے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔‘ رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’اِس وقت عوام کی طاقت استعمال کرنے کا وہ ماحول نہیں ہے جو کسی بڑی تبدیلی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ جب اظہار کے مواقع ہی ختم کر دیے جائیں تو پھر کیا ہو گا۔ اظہار کا سب سے مؤثر ذریعہ شفاف الیکشن ہوتے ہیں۔‘لیکن یوں لگتا ہے کہ یہاں ایک شخص کی دوسرے شخص سے جنگ چل رہی ہے۔ صرف طاقت کی سیاست ہے اور کچھ نہیں۔‘

خیال رہےکہ گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی خالد خورشید کے خلاف رکنِ گلگت بلتستان اسمبلی غلام شہزاد آغا نے چیف کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہلی کی درخواست دائر کر رکھی تھی۔ خالد خورشید پر الزام تھا کہ انہوں نے برطانیہ کی بیلفورڈ یونیورسٹی سے منسوب قانون کی جعلی ڈگری جمع کرائی ہے۔ بعدازاں خالد خورشید نے عدالت کے سامنے یونیورسٹی آف لندن کی ڈگری اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا اس ڈگری کے مساوی سرٹیفیکیٹ بھی پیش کیا تھا۔ یہ دونوں دستاویزات تصدیقی عمل کے بعد جعلی قرار پائیں جس کی بنیاد پر عدالت نے خالد خورشید کو نااہل قرار دے دیا۔

خیال رہے کہ گلگت بلتستان بار کونسل نے بھی خالد خورشید کا وکالت کا لائسنس کیس کے فیصلے تک معطل کر رکھا تھا۔ 29 مئی کو گلگت بلتستان کے چیف جج علی بیگ نے اس کیس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے کر اس مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے اور 14 دن میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ منگل کو ہی گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے نو اپوزیشن ارکان نے خالد خورشید کے خلاف اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی لیکن اس پر ووٹنگ سے قبل ہی اعلٰی عدالت نے خالد خورشید کو نااہل قرار دے دیا۔

دوسری طرف گلگت بلتستان اسمبلی میں تحریک انصاف اب بھی اپنی اکثریت کا دعویٰ کر رہی ہے تاہم سیاسی مبصرین آئندہ دنوں میں ہونے والے جوڑ توڑ پر نگاہیں مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ آیا پی ٹی آئی اپنا نیا وزیراعلٰی لا سکے گی یا پھر ان کے ارکان اپنی سیاسی وفاداریوں سے دستبردار ہو جائیں گے۔

گلگت بلتستان کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شبیر میر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’ابھی صورت حال بالکل بھی واضح نہیں ہے۔‘’آپ نے دیکھا ہو گا کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کی اکثریت تھی لیکن اس کے بعد کیا ہوا۔ چند دنوں میں گلگت میں وزیراعظم پاکستان نے بھی آنا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’لگتا یہی ہے کہ نیا سیٹ بنے گا۔ یہ لوگ شروع دن سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے لیکن انہیں کوئی بُلا نہیں رہا ہے۔ اب میرا خیال ہے کہ کوئی زیادہ وقت لیے بغیر یہ سب چھوڑ جائیں گے۔‘

خیال رہے کہ خالد خورشید 15 نومبر 2020 کو منعقد ہونے والے گلگت بلتستان کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔انہوں نے گلگت بلتستان کے ضلع استور کے حلقہ 13 سے الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے مدمقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالحمید خان کو 1719 ووٹوں سے شکست دی۔خالد خورشید نے یکم دسمبر 2020 کو وزیراعلٰی گلگت بلتستان کے عہدے کا حلف اٹھایا اور لگ بھگ اڑھائی برس تک اس منصب پر فائز رہے۔

Back to top button