امریکی صدارتی الیکشن میں کملا آگے اور ڈونلڈ ٹرمپ ان سے پیچھے
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے مابین کانٹے کا مقابلہ جاری ہے اور دونوں اطراف سے اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کئے جا رہے ہیں تاہم امریکی سیاسی پنڈت کملا ہیرس کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔
ٹرمپ کی ہارپرحامی پریشانی کا شکار ہوں گے
ٹرمپ کی شکست کے بعد امریکہ میں ان کے حامی تو پریشانی کا شکار ہونگے ہی تاہم ٹرمپ کی ناکامی کے بعد پاکستانی یوتھیوں کے گھروں میں بھی صف ماتم بچھتی دکھائی دے رہی ہے جو ٹرمپ کی جیت کی صورت میں عمران خان کی رہائی کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔
پنڈتوں کی کملا ہیرس کے صدر بننے کی پیش گوئیاں
امریکی صدارتی انتخابات سے چند گھنٹے قبل مستقبل پر نظر رکھنے والے پنڈتوں نے کملا ہیرس کے صدر بننے کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ 10صدور میں سے 9کی درست پیش گوئی کرنے والے امریکی مورخ لچ مین نے پیش گوئی کی ہے کہ ٹرمپ کو شکست ہوگی، 1986کے بعد سے لچ مین کی صرف ایک بار 2000ء میں پیش گوئی غلط ثابت ہوئی ، ٹرمپ کی 2016 ء میں جیت کی پیش گوئی کرنے والے تھامس ملر کا بھی کہنا ہے کہ کملا ہیرس جیت جائیں گی.
خیال رہے کہ امریکہ میں ہر چار سال بعد صدارتی اتنخابات ہوتے ہیں لیکن الیکشن کا دن ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے جو نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والا منگل ہے۔ تاہم یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی الیکشن کے لیے اسی دن کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اور یہ روایت کب سے برقرار ہے؟
مبصرین کے مطابق امریکہ کی آزادی کے بعد 1788 میں ہونے والے پہلے صدارتی الیکشن کے بعد 1800 کی ابتدائی دہائیوں تک ریاستیں 34 دن کے دورانیے میں کسی بھی دن الیکشن کرا سکتی تھیں اور اس کے لیے کوئی ایک دن مقرر نہیں تھا۔اس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے تھے۔ پالیسی سازوں کو جلد اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ 34 دن کے دورانیے میں جن ریاستوں میں پہلے ووٹنگ ہو جائے گی اس کے نتائج دیگر ریاستوں کی رائے عامہ کو بھی متاثر کریں گے۔
مبصرین کے مطابق اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ پورے امریکہ میں صدارتی الیکشن کے لیے ایک دن اور تاریخ متعین کر دیے جائیں۔
کانگریس نے 1845 میں قانونی سازی کر کے نومبر میں پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو انتخاب کا دن مقرر کردیا۔ الیکشن کے لیے اس دن اور مہینے کا تعین بہت سوچ بچار کے بعد کیا گیا اور ووٹرز کی زیادہ سے زیادہ سہولت کو پیشِ نظر رکھا گیا۔
مبصرین کے مطابق انیسویں صدی تک امریکہ میں شامل ریاستوں کی زیادہ تر آبادی زراعت سے وابستہ تھی۔ ان لوگوں کے معمولات بہت سخت تھے جس میں فصلوں کی کاشت، ان کی کٹائی، صفائی اور منڈیوں میں فروخت جیسے مراحل سے گزرنا ہوتا تھا۔
عام طور پر کاشت کار بدھ کو اپنی اجناس اور پیداوار منڈیوں میں فروخت کرنے جاتے تھے۔ اس لیے ووٹنگ کے لیے بدھ کا دن مقرر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔اتوار کو چھٹی تو ہوتی تھی لیکن اس دن الیکشن رکھنے میں یہ قباحت تھی کہ زیادہ تر آبادی چرچ جاتی تھی۔ پھر بہت سے ووٹر پولنگ اسٹیشنز سے بہت دور رہتے تھے۔
اس لیے دو مصروف دنوں کے درمیان کانگریس ووٹرز کو پولنگ بوتھ تک آنے کے لیے طویل مسافت طے کرنے کا بھی مناسب وقت دینا چاہتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ منگل کو مناسب ترین دن سمجھا گیا کیوں کہ اس طرح چرچ میں عبادت کے بعد پولنگ اسٹیشن پہنچنے کے لیے بھی مناسب وقت مل گیا اور بدھ کا اہم کاروباری دن بھی متاثر نہیں ہو رہا تھا۔
تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کیلئے نومبر کا مہینہ ہی کیوں کیا گیا؟ مبصرین کے مطابق الیکشن کے لیے مہینے کا انتخاب کرتے ہوئے بھی کاشت کاروں کی مصروفیات مدِ نظر رکھی گئیں۔ موسمِ بہار اور گرما میں فصل کی بوائی کا موسم ہوتا ہے جبکہ گرمی کے اختتام اور خزاں کے ابتدائی دنوں میں فصلوں کی کٹائی اور پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔
اس لیے نومبر کو سب سے مناسب مہینہ سمجھا گیا کیوں کہ فصلوں کی کٹائی کا کام مکمل ہو جاتا ہے اور سردی میں شدت بھی پیدا نہیں ہوتی۔دنیا میں آج کئی ممالک اتوار کو الیکشن منعقد کراتے ہیں لیکن امریکہ میں اب بھی منگل ہی کو الیکشن ڈے ہوتا ہے۔
بعض لوگ الیکشن ڈے کے دن میں تبدیلی پر زور دیتے ہیں۔ ان کے بقول امریکہ کی زیادہ تر ورکنگ کلاس اب پیر سے جمعے تک کام کرتی ہے اس لیے الیکشن ڈے پر ووٹنگ آسان بنانے کے لیے اسے چھٹی کے دن ہونا چاہیے۔ اسی طرح الیکشن ڈے کو عام تعطیل قرار دینے کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم اب امریکہ میں زراعت سے وابستہ خاندان آبادی کا صرف دو فی صد ہیں لیکن نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو الیکشن ڈے کی روایت آج بھی برقرار ہے۔