بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے اس پر پردہ کیوں ڈالا جا رہا ہے ؟

معروف لکھاری ہے اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ ریاست پاکستان کی جانب سے بلوچستان کا گھمبیر ہوتا ہوا مسئلہ حل کرنے اور بلوچوں کو ان کے جائز حقوق دینے کی بجائے مسلسل طاقت استعمال کی جا رہی ہے اور اصل مسئلے کو ایک نفرت انگیز بیانیے کی اسموک اسکرین کے پیچھے چھپانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے جو کی سراسر دھوکہ دہی یے۔

اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی بتاتے ہیں کہ بلوچ عوام کے ساتھ ایسی دھوکہ دہی قیام پاکستان کے بعد سے ہوتی چلی آئی ہے۔ وہ اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ نوروز خان زرکزئی کو بلوچستان والے ’بابو نوریز‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، جو ایک شورش پسند تھے، موصوف پہلے قلات کے حقوق کے لیے انگریز سے لڑتے رہے، پھر انگریز گئے تو نوروز نئے حاکموں سے بِھڑ گئے۔ جب 1955ءمیں ون یونٹ بنا تو بلوچستان کو اپنے حقوق میں مزید کمی کی شکایت ہوئی، نوروز خان پھر لگ بھگ ایک ہزار ساتھیوں سمیت پہاڑوں پر چڑھ گئے اور مزید شدت سے پاکستانی حکام سے برسرِ پیکار ہو گئے۔ اس دوران قبائلی زعماء اور حکومتِ پاکستان کے مذاکرات کے بعد 1960 میں جنگ بندی کا راستہ نکال لیا گیا۔ حکومت نے وعدہ کیا کہ ون یونٹ ختم کر دیا جائے گا اور نوروز خان اور ان کے تمام ساتھیوں کو عام معافی دے دی جائے گی۔ مگر نوروز نے ان وعدوں پر اعتبار نہ کیا اور ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ آخری کوشش کے طور پر حکومت پاکستان نے ایک جرگہ نوروز خان کے پاس بھیجا، جرگے نے قرآن مجید کو ضامن بنایا اور حکومت پاکستان کا عام معافی کا وعدہ شد و مد سے دہرایا، آخرِ کار نوروز خان نے اعتبار کر لیا اور اپنے ساتھیوں سمیت قرآن کی چھائوں میں پہاڑ سے اتر آیا۔ لیکن نوروز خان کے ساتھ بد عہدی کی گئی، حکومت پاکستان نے قرآن کو گواہ بنا کر جھوٹ بولا۔ نوروز خان اور اس کے 160ساتھیوں پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ نوروز کے بیٹے سمیت سات لوگوں کو بغاوت کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔ مورخ ڈاکٹر شاہ محمد مری روایت کرتے ہیں کہ جب آخری دیدار کے لیے بیٹے کی لاش نوروز خان کے سامنے لائی گئی تو اُس نے بیٹے کی مونچھوں کو تائو دیا، اور اپنے قبیلے کو پیغام بھجوایا کہ میرے بیٹے کی موت کا سوگ نہ منایا جائے بلکہ جشن منایا جائے جیسے شادی بیاہ کی خوشی منائی جاتی ہے، کیوں کہ میرے بیٹے نے ایک بڑے مقصد کے لیے جان دی ہے۔ بعد ازاں، 95سال کی عمر میں، نوروز خان کا جیل میں ہی انتقال ہو گیا۔ نوروز بابو آج بلوچستان میں ایک دیومالائی کردار سمجھے جاتے ہیں۔

کیا بلوچوں کے ساتھ زیادتی کے ذمہ دار پنجابی سویلینز ہیں یا کوئی اور؟

حماد غزنوی بتاتے ہیں کہ اسی طرح جنرل مشرف کے حکم پر 80 سالہ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کو بھی 26 اگست 2006 کو کولہو کے پہاڑوں میں فوج نے قتل کر دیا۔ ان کے قتل سے کچھ دن پہلے فوجی آمر پرویز مشرف نے بلوچ قوم پسندوں کو مخاطب کر تے ہوئے کہا تھا کہ یہ ستّر کی دہائی نہیں ہے، آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ آپ کو کس طرح قتل کیا گیا، اور پھر ایسا ہی ہوا، ایک فوجی آپریشن کے دوران اکبر بگٹی جس غار میں پناہ لیے ہوئے تھے اُس کو بم دھماکے سے اڑا دیا گیا جس سے وہ اور ان کے ساتھی شہید ہو گئے۔ لیکن آج بگٹی کا نام بھی بلوچی لوک گیتوں میں شامل ہو چکا ہے۔ اپریل 2009میں بی این ایم کے صدر غلام محمد بلوچ اور دو قوم پرست رہنما لالہ منیراور شیر محمد اغوا ہوئے، کچھ دن بعد ان کی تشدد زدہ لاشیں ملیں۔ ایسی درجنوں کہانیاں ہیں، اور بیسیوں لاشیں۔

حماد کہتے ہیں کہ ایک بڑا مسئلہ لاپتا افراد کا ہے۔ لوگ غائب ہو جاتے ہیں، باپ، بیٹے، خاوند، بھائی، ان کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے، ان کا ذکر کبھی کبھی عدالتوں میں سنتے ہیں، کبھی کبھار پارلیمان میں، خصوصی کمیشن بھی بنتے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا، اور مسئلہ الجھا دیا جاتا ہے، سال ہا سال گزر گئے، پاکستانی شہری اغوا ہوتے چلے گئے، کچھ دو چار سال بعد کٹے پھٹے گھروں کو لوٹ آئے جب کہ ہزاروں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ لاپتا افراد ’بیانیے‘ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ انسانی مسئلہ ہے، یہ گمشدہ بھائیوں، لاپتا خاوندوں، جبری اغوا شدہ بیٹوں کی بات ہو رہی ہے۔ ان لاپتا افراد کے لواحقین کی ذہنی ساخت کیا ہوتی ہے؟ ان کی زندگی کا واحد نصب العین کیا ہوتا ہے؟ سنتے ہیں کہ ماہ رنگ بلوچ کا باپ بھی اغوا ہو گیا تھا، اور پھر اس کی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔ پچھلے 77سالوں میں بلوچستان میں پانچ علانیہ آپریشن ہو چکے ہیں، ان میں سے دو آپریشنز میں فضائی طاقت بھی استعمال کی گئی تھی، اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ فضائی کارروائی میں کولیٹرل ڈیمج بہت زیادہ ہوا کرتا ہے، ایک آدمی کو مارنا ہو تو کبھی پورا گائوں بھی ملیا میٹ کرنا پڑجاتا ہے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ 26 اگست کو موسی خیل میں ایک گھنائونی واردات میں23 معصوم پنجابیوں کو قتل کر دیا گیا۔ لیکن یہ بلوچی پنجابی جھگڑا نہیں ہے، یہ دہشت گردی ہے۔ جب گھر کے صحن میں آپ کے پیاروں کی لاشیں پڑی ہوں تو جذبات میں تلاطم ہوتا ہے، موقع سے فائدہ اٹھانے والے متحرک ہو جاتے ہیں، اس وقت بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، سوشل میڈیا پر کھلم کھلا پنجابی شاونزم کو ہوا دی جا رہی ہے، افسوس کہ کچھ دوست اس معاملے کو اسی طرح دیکھنے لگے ہیں جیسا کہ دشمن دکھانا چاہتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں جب آپریشن سرچ لائٹ آغاز کیا گیا تو مغربی پاکستان، بالخصوص پنجاب نے اس کی بھرپور حمایت کی تھی، بنگالی عوام اور ان کے لیڈر غدار قرار پا چکے تھے، پاکستان کی اکثریت انڈیا کی ایجنٹ قرار پا چکی تھی، ایک گمراہ کن بیانیہ جیت چکا تھا۔ ایسے میں معروف دانشور اور لکھاری پروفیسر وارث میر، عوامی شاعر حبیب جالب، ملک غلام جیلانی، اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسے بہت کم باہمت تھے جو با آوازِ بلند کہہ رہے تھے کہ یہ لڑائی پنجابی اور بنگالی کی نہیں ہے، یہ طاقتور اور کمزور کی لڑائی ہے، یہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کا جھگڑا ہے، یہ آئین اور لاقانونیت کی جنگ ہے۔ مگر نفرت کا بیانیہ جیت گیا۔

بلوچستان کا بھی ہو بہ ہو یہی مسئلہ ہے، اس مسئلے کو ایک نفرت انگیز بیانیے کی سموک اسکرین کے پیچھے چھپانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، لیکن دھوکا نہ کھائیے اور غور فرمائیے!

Back to top button