کیا بلوچستان واقعی پاکستانی فوج کے ہاتھ سے نکل چکا ہے؟
بلوچستان میں قومی پرست عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی میں خوفناک حد تک اضافے کے بعد اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ریاست کی رٹ واقعی ختم ہو چکی ہے۔ اس سوال میں شدت تب آئی جب جنرل مشرف کے حکم پر ایک فوجی دستے کے ہاتھوں شہید ہونے والے بلوچ قومی پرست نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی پر بلوچستان کے 11 اضلاع میں ایک ہی دن دہشت گردی کے درجنوں بھر سے ذیادہ واقعات ہوئے جن میں ایک خاتون کی جانب سے خودکش حملہ بھی شامل تھا۔ ان کارروائیوں میں 38 شہری، 21 بلوچ شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار مارے گے۔ ایک جانب بلوچ قوم پرستوں کا شکوہ ہے کہ ریاست پاکستان ان کے ساتھ پیار کی بجائے بات کرنے کی بجائے بندوق استعمال کرتی ہے تو دوسری جانب ریاست کا موقف ہے کہ اس کی رٹ چیلنج کرنے والے عسکریت پسندوں کو دشمن ممالک کی مدد حاصل ہے لہٰذا ان کے ساتھ بندوق کی زبان میں ہی بات کی جائے گی۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پچھلی کئی دہائیوں سے بلوچستان میں فوج کی پراکسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں جس وجہ سے بلوچ عوام مکمل طور پر آئیسولیشن میں چلے گئے ہیں اور بلوچ نوجوان تیزی سے عسکریت پسندی کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرف دور میں سال 2006 میں نواب اکبر بکتی کے فوج کے ہاتھوں قتل کے باوجود بلوچ قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل 2012 میں جلاوطنی ترک کر کے پاکستان واپس آئے تاکہ پارلیمنٹ کے ذریعے بلوچ عوام کے حقوق حاصل کیے جا سکیں۔ لیکن 12 برس تک پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب تک فیصلہ سازی فوج کے پاس رہے گی، بلوچستان کا سیاسی حل ناممکن ہے لہٰذا وہ قومی اسمبلی سے استعفی دے کر پاکستان چھوڑ گے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان میں پرانی سیاسی قیادت سیاسی طور پر غیر متعلق ہو گئی ہے اور نوجوان ان سے آگے نکل گے ہیں۔اس وقت بلوچ قوم پرستوں نوجوانوں کی قیادت کرنے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سب سے نمایاں ہیں جنہوں نے پوری پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو آگے لگا رکھا ہے۔ وہ کبھی گوادر میں دھرنا دیتی ہیں تو کبھی اسلام اباد میں۔ ماہ نور کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آپ بلوچستان کے کسی شہر میں چلے جائیں، آپ کو انکا چہرہ گاڑیوں کی وِنڈ سکرینز، موٹر سائیکل کی رجسٹریشن پلیٹز، ٹی شرٹس حتیٰ کہ منھ پر پہنے جانے والے ماسکز پر بھی نظر آئے گا۔ بلوچ عوام کے حقوق کے حصول کی خاطر جدوجہد کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’آج ہمیں ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ ہم نے حال ہی میں ایسی لاشیں بھی اٹھائی ہیں جن کی آنکھیں نکالی گئیں۔ یہ ریاست کا وہ حربہ ہے جو بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود بدل نہیں پا رہا اور اسی سے بلوچ عوام اور ریاست کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ عوام کو وہ پلیٹ فارم نہیں دیا گیا جہاں ہم اپنے مسائل کی نشاندہی کر سکیں۔ لیکن ہماری کوشش ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی مزاحمت کے ذریعے ہم اپنے مسائل کی نشاندہی کریں اور عوام کے بنیادی مسائل حل کروائیں۔
جسٹس منصور شاہ کھل کر پی ٹی آئی کے ساتھ کیوں کھڑے ہو گئے؟
تاہم حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ماہ رنگ بلوچ کے ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ حال ہی میں حکومت بلوچستان نے ماہ رنگ بلوچ پر گوادر میں احتجاج کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں، بشمول پاکستان چائنہ سی پیک پراجیکٹ کے دوسرے مرحلے کے آغاز کو روکنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔
یہ الزام ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے گوادر میں بلوچ قومی اجتماع منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس دوران مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ اس معاملے پر فوجی ترجمان نے کہا تھا کہ بلوچوں کے اجتماع میں شریک افراد کے تشدد سے ایک سپاہی ہلاک اور دیگر 17 اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ اسلام آباد میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ریاست مخالف سوچ صعف چند علاقوں تک ہی محدود ہے لیکن سینئیر صحافی اسد بلوچ کے مطابق ’نواب اکبر بُگٹی کی 2006 میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہلاکت سے پہلے ایک یا دو اضلاع تک محدود شورش اس واقعے کے بعد صوبے بھر میں پھیل چکی ہے اور بلوچ نوجوان تیزی سے عسکریت پسندی کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں 26 اگست 2023 کو 11 اضلاع میں ہونے والے حملوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک حملہ بلوچستان یونیورسٹی کی ایک بلوچ طالبہ ماہل بلوچ نے خود کش جیکٹ پہن کر کیا تھا۔ اس سے پہلے اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ کرنے والی شاری بلوچ بھی ایک خاتون تھی جس کا شوہر ڈاکٹر تھا اور اس کے دو بچے بھی تھے۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچ نوجوان اپنے حقوق کی خاطر کس حد تک جذباتی ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ اگست میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے نے قبول کی تھی، ان حملوں کے بعد رد عمل دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے ریاست بلوچستان میں ظلم کر رہی ہے، لیکن ظلم تو یہ ہے کہ معصوم پاکستانیوں کو کبھی پنجابی اور کبھی پشتون قرار دے کر بسوں سے اتار اتار کر انتہائی بزدلانہ طریقے سے قتل کیا جا رہا یے۔ اس لیے ایسے گھناؤنے کام کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ ان کے خلاف بندوق ہی استعمال ہوگی’۔ دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بظاہر ریاست غصے میں ہے اور عسکریت پسند بلوچ تنظیموں کے خلاف ایکشن کی بات کر رہی یے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان اب انہیں قابو کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ان کا کہنا ہے کہ نواب اکبر بگتی کے قتل کے بعد سے پچھلے 12 سالوں میں فوج نے بلوچ نوجوانوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے ردعمل میں بلوچ عسکریت پسندوں کی تحریک میں اور بھی تیزی ائی ہے اور نوجوان مسلسل ان کے ساتھ ملتے جا رہے ہیں۔ مختصر نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان اب ریاست پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اس حوالے سے صرف اعلان ہونا باقی ہے۔