جسٹس منصور شاہ کھل کر پی ٹی آئی کے ساتھ کیوں کھڑے ہو گئے؟

آئینی ترمیمی پیکج پیش ہونے سے فوری پہلے سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کی جانب سے تحریک انصاف کو مخصوص سیٹیں دلوانے کے لیے الیکشن کمیشن کو لکھا گیا خط کھلم کھلا دھمکی کے مترادف ہے جس کے پیچھے ایک مخصوص عمرانی ایجنڈا نظر آتا یے۔ دو ماہ سے زیادہ گزر جانے کے باوجود جسٹس منصور علی شاہ نے اس کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں لکھا اور اب الیکشن کمیشن کے نام ایک دھمکی آمیز پریس ریلیز جاری کر دی ہے جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ معروف لکھاری اور تجزیہ کار بابر غوری نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا کوئی بنچ کسی مقدمے میں اتفاق رائے سے فیصلہ سنانے کے بجائے اکثریت کی بنیاد پر احکامات صادر کرتا ہے تو بھی اسے محض ان ججوں کا نہیں بلکہ پورے بنچ کا فیصلہ تصور کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے 13 رُکنی بنچ میں سے 8 ججز نے یہ فیصلہ دیا کہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونیوالے ارکان اسمبلی کا تعلق دراصل تحریک انصاف سے ہے اور انہیں پی ٹی آئی میں شمار کیا جائے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارا آئین ہی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اس عمل کو فلور کراسنگ شمار کیا جاتا ہے۔

بلال غوری بتاتے ہیں کہ 39 ارکان قومی اسمبلی جنہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت پارٹی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع کروایا تھا، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق الیکشن کمیشن کو انہیں تو فوری طور پر تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا جانا چاہیئے جبکہ باقی 41 ارکان قومی اسمبلی کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ 15 دن میں اپنا فیصلہ کر سکیں۔ لیکن اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے کہا گیا کہ یہ سب لوگ تو پہلے ہی فیصلہ کر چکے ہیں اور سنی اتحاد کونسل کا حصہ بن چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے موقف کے مطابق پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیئے جانے کی وجہ سے اس سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا تھا اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی۔ لہازا اسکا مطلب یہ ہوا کہ فی الوقت پی ٹی آئی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہے، اور کوئی چیئرمین بھی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس موقف کو سختی سے رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 8 مخصوص ججز نے ایک نئی عدالتی تاریخ رقم کرتے ہوئے 14 ستمبر 2024ء کو 4 صفحات پر مشتمل ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کمیشن کو کھلی دھمکیاں دیں اور یہ بھی لکھا کہ اگر ان کے فیصلے پر فوری عمل نہ کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ دو ماہ گزرنے کے باوجود جسٹس منصور علی شاہ اور ان کے ساتھیوں نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیوں نہیں کیا اور شارٹ آرڈر کی بنیاد پر اپنے فیصلے پر عمل درامد کروانے پر اصرار کیوں کر رہے ہیں۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے نام پریس ریلیز جاری کر کے سپریم کورٹ نے اپنی الگ مسجد بنا لی ہے جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے اپنے رولز میں اس کے کسی فیصلے کی تحریری وضاحت کی کوئی گنجائش موجود ہے؟ اگر کسی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو توہین عدالت کی کارروائی کی جا سکتی ہے اور اس پر سماعت کی جاسکتی ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا فیصلہ دینے والے 8 مخصوص جج صاحبان لٹھ لیکر خود اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی دھمکی دے سکتے ہیں اور وہ بھی الیکشن کمیشن جیسے ایک آئینی ادارے کو؟ جب فیصلوں اور احکامات کی وضاحتیں دینا پڑیں تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔

اب آتے ہیں 8 ججز کی پریس ریلیز کے اس نکتے کی طرف جو سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ بلال غوری کہتے ہیں کہ بیرسٹر گوہر کو پی ٹی آئی کا چیئرمین تسلیم کرنے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے معزز جج صاحبان نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسند، منصب یا عہدے پر براجمان ہو تو قطع نظر اس بات کے کہ وہ اسکا جائز اور قانونی حقدار ہے یا نہیں، اسے وہ تمام حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی نظریہ ضرورت اور بھونڈی دلیل ہے جسکے تحت ایوب خان سے پرویز مشرف تک ہر ڈکٹیٹر کے غیرآئینی اقدام کو عدلیہ نے جائز قرار دیا اور ان فیصلوں پر کئی بار شرمندگی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ کل اگر کوئی ڈکٹیٹر منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر عنان اقتدار پر قبضہ کرلے، آئین کو روند ڈالے تو اس نظریہ ضرورت کے تحت اسے وہ تمام حقوق حاصل ہو جائینگے جو آئینی و قانونی طریقے سے برسراقتدار آنیوالے حکمران کو حاصل ہوتے ہیں۔ میں اسے مزید آسان کردیتا ہوں، فی الحال یہ بحث ہو رہی ہے کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے، تا کہ 5 سینئر موسٹ ججز میں سے کسی کو بھی چیف جسٹس بنایا جا سکے۔ لیکن 8 جج صاحبان نے جو استدلال اختیار کیا ہے اسکی رو سے اگر وفاقی وزیر عطااللہ تارڑ صاحب اسلام آباد پولیس کے کمانڈوز کو ساتھ لیکر سپریم کورٹ چلے جائیں اور تقرری کے نوٹیفکیشن کے بغیر چیف جسٹس کا منصب سنبھال لیں تو انہیں وہ سب اختیارات اور حقوق حاصل ہونگے جو کسی بھی چیف جسٹس کیلئے مخصوص ہوتے ہیں۔ بلال غوری سوال کرتے ہیں کہ کیا سپریم کورٹ کے اٹھ رکنی بینچ کی جانب سے اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس سے زیادہ بھونڈا جواز پیش کیا جا سکتا تھا۔

Back to top button