کیا چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی اصول پسندی جائز ہے؟

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی جانب سے تحریک انصاف کے ایک گرفتار سینٹر کو ایوان میں پیش کرنے کے لیے اپنایا گیا اصولی موقف جہاں اپوزیشن کی طرف سے سراہا گیا ہے وہیں حکومتی اراکین اس پر نالاں ہیں، انکا موقف ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو کے اصول کے تحت تحریک انصاف کے گرفتار شدہ اراکین کو بھی ویسے ہی ایوان میں پیش نہیں کیا جانا چاہیے جیسے عمران خان کے دور میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے اراکین کیساتھ کیا جاتا تھا۔

اس معاملے کے حوالے سے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں سیاستدانوں کو بحیثیت مجموعی محض اقتدار کی ہوس میں مبتلا بتایا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کی لعنت ملامت کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ جن دنوں مسلم اشرافیہ کی بے پناہ ا کثریت برطانوی استعمار کی تشکیل کردہ سول اور ملٹری انتظامیہ میں بھرتی کے لیے مری جارہی تھی تو محمد علی جناح جیسے اصول۔پسند سیاست دانوں ہی کی بدولت پاکستان کا قیامِ عمل میں آیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ہماری تاریخ میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جہاں چند سیاستدانوں نے انفرادی یا جماعتی حیثیت میں ہر نوع کے آمرانہ ہتھکنڈوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ طاقتوروں کے آگے نہ جھکنے کی وجہ سے ہی بھٹو شہید کو پھانسی کہ بندے پر جھولنا پڑا۔ خان غفار خان اور عبدالصمد اچکزئی جیسے اصول پرست سیاست دانوں نے تقریباً ساری عمر جیلوں میں گزار دی۔ میاں افتخار الدین اور حسین شہید سہروردی جیسے قدآور سیاستدان افسردگی سے موت کی نذر ہوئے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود سختیاں جھیلنے والوں اصول پسند سیاست دانوں کو ہم یاد نہیں رکھتے۔ ہم ’جیہڑا جتے، اوہدے نال‘ کا رویہ نہایت ڈھٹائی سے اپناتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم فقط سیاستدانوں ہی سے یہ توقع باندھتے ہیں کہ وہ آمرانہ رویوں کا مقابلہ کریں۔ تاہم مقابلہ کرنے والوں کو یاد نہ رکھنے کی عادت نے ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت کو بھی اب بے دریغ انداز میں اصول بھول جانے کا عادی بنادیا ہے۔ اس تناظر میں سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی کو میں استثنا کی صورت دیکھنے کو مجبور ہوں۔ جنرل ضیاء کی مجلس شوریٰ کا رکن ہونے کے بعد وہ 1985ء کی نیشنل اسمبلی میں آئے تھے۔ انھیں ایک روایتی جاگیردار سیاستدان سمجھتا رہا جو طاقتور کو نہ کہنے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ ان کو قریب سے جاننے والے چند بزرگ سیاستدان اگرچہ مجھے بتاتے رہے کہ ملتان کے گیلانی خاندان میں کبھی کبھار ’باغیانیہ خیال‘ کے حامل افراد بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔

سینئیر صحافی بتاتے ہیں کہ برطانوی دور میں ضلع کونسل کی چودھراہٹ اہم ترین عہدوں میں شمار ہوتی تھی۔ اس منصب پر فائز ہونے کے لیے ضلع کے انگریز ڈپٹی کمشنر کی سرپرستی درکار تھی۔ لیکن گیلانی خاندان کے ایک بزرگ انگریز ڈی سی کی سرپرستی کے بغیر ضلع کونسل کے چودھری منتخب ہو گئے۔ اس معاملے نے لوگوں کو چونکا دیا۔ 1985ء کی اسمبلی میں پیرپگاڑا کی تھپکی کے ساتھ نوازشریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لیے ایک گیم چلی۔ جنرل ضیاء نے براہِ راست مداخلت کے ذریعے نواز شریف کا ’کلہ‘ بچایا۔ یوسف رضا گیلانی اس گیم میں اپنی ہار تسلیم کرنے کے بعد اچھے وقت کا انتظار کرنے لگے۔ بالآخر 1986 آیا تو پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر وفاقی وزیر بن گئے۔ لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت دو سال بعد ہی صدر اسحاق کے ہاتھوں برطرف کردی گئی۔ نئے انتخابات ہوئے تو نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ تاہم یوسف رضا گیلانی نے دیگر کئی روایتی سیاستدانوں کی طرح چڑھتے سورج کا ساتھ نہیں دیا اور پیپلز پارٹی ہی میں ٹکے رہے۔ اس وابستگی نے مجھے حیران کیا۔

نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ آصف زرداری 1990ء کے انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ صدر اسحاق نے اپنے ’احتساب کمشنر‘ مرحوم روائیداد خان کے ذریعے انھیں مختلف کرپشن مقدمات کے تحت جیل میں ڈال دیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی بھی پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر اسحاق خان کے کارندے بن چکے تھے۔ انھوں نے جاگیردارانہ منتقم المزاجی کے ساتھ ان پر سندھ میں مزید کئی مقدمات قائم کر کے آصف زرداری کو تاعمر جیل میں رکھنے کا عہد باندھ رکھا تھا۔ دنیا کے کئی جمہوری ملکوں میں سنگین ترین جرائم کے تحت گرفتار ہوئے رکن پارلیمان کو بھی یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ پارلیمینٹ کے اجلاس کے دوران ’اپنے لوگوں کی نمائندگی‘ کے لیے وہاں موجود ہو۔ گرفتار شدہ رکن کی ایوان زیریں یا بالا میں حاضری یقینی بنانے کے لیے مذکورہ ایوانوں کے سربراہ ’پروڈکشن آرڈر‘ جاری کرتے ہیں۔

1990ء کی قومی اسمبلی کے سپیکر عمر ایوب خان کے والد گوہر ایوب خان تھے۔ وہ اسمبلی کا ہر اجلاس شروع ہوتے ہی پیپلز پارٹی کے مطالبے پر آصف علی زرداری کی اس میں موجودگی یقینی بنانے کے لیے ’پروڈکشن آرڈر‘ جاری کرتے۔ لیکن جام صادق علی سندھ میں قید آصف زرداری کو اسلام آباد بھیجنے سے انکار کر دیتے تھے۔ ان کے انکار کو صدر غلام اسحاق خان کی کامل پشت پناہی میسر تھی۔ کئی مہینوں تک جام صادق علی کے ہاتھوں زچ ہونے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور گوہر ایوب خان کے مابین ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اد ملاقات کو تب وزیر اعظم نواز شریف کی خفیہ تائید بھی حاصل تھی۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ کسی گرفتار رکن اسمبلی کی ایوانِ زیریں کے اجلاس میں موجودگی یقینی بنانے کے لیے اسمبلی کے قواعد میں ایسی زبان کے ساتھ کوئی نئی شق ڈالی جائے جو جام صادق علی جیسے افراد کو اس ضمن میں بے اثر بنا سکے۔ کئی مہینوں کی جدوجہد کے بعد متعارف ہوئی اس شق کی بدولت بالآخر آصف زرداری جیل سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آنا شروع ہوگئے۔

لیکن نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ 1993 میں وقت بدل گیا۔ صدر اسحاق نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کرنے کے بعد نواز شریف کی پہلی حکومت کو بھی برطرف کر دیا۔ نئے الیکشن ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئیں۔ یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر اس کے سپیکر بن گئے۔ 1993 کی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر راولپنڈی کی لال حویلی کے مکیں شیخ رشید بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب بھی بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں داخل ہوتیں تو شیدا ٹلی گلی کے لونڈوں کی طرح ان پر فقرے اچھالتے۔ ایک بار موصوف نے محترمہ کے لباس کی مناسبت سے انتہائی بے ہودہ فقرہ کہا۔

جب وہ یہ بیہودہ فقرہ پھینک رہے تھے تو چودھری الطاف حسین بطور گورنر پنجاب مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔ چودھری الطاف نے غصیلے جاٹ کی طرح وعدہ کیا کہ وہ شیدے ٹلی کی بدزبانی کا بدلہ لیں گے۔ اپنا عہد نبھانے کے لیے چودھری الطاف نے اسی رات لال حویلی سے ممنوعہ بور کی بندوق بذریعہ پنڈی پولیس برآمد کروالی۔ ممنوعہ بور کا غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں شیخ رشید پر انسداددہشت گردی کی عدالت میں تیز رفتاری سے مقدمہ چلا۔ قید بامشقت کی سزا سنانے کے بعد انھیں قیدیوں سے مختص لباس پہنوا کر بہاولپور جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن وہ قومی اسمبلی کے ابھی بھی رکن تھے۔ جب قومی اسمبلی کااجلاس ہوتا تو مسلم لیگ لال حویلی کے بدزبان کے لیے پروڈکشن آرڈر کا تقاضا کرتی۔ تاہم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہوتا کیونکہ اب کی بار پنجاب کا مہاراجہ بننے والے چودھری الطاف ’اپنا قیدی‘ اسلام آباد بھیجنے کو تیار نہ ہوتے تھے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ گیلانی کو پیپلز پارٹی کا جی حضوری گروپ تنہائی میں لال حویلی کے مکیں کی بدزبانیاں یاد دلاتا۔ لیخن گیلانی کا ایک ہی جواب ہوتا اور وہ یہ کہ اسمبلی کے قواعد گرفتار رکن پارلیمان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجودگی کا تقاضا کرتے ہیں اور یہ اصول پیپلز پارٹی کی محنت ولگن سے مضبوط ہوا تھا۔ چنانچہ وہ پروڈکشن آرڈر جاری کرتے رہے۔ چوھری الطاف حسین ان کی حکم عدولی پر مصر رہے تو گیلانی نے نہایت خاموشی و بردباری سے قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت سے غائب رہنا شروع کر دیا۔ سپیکر کی عدم موجودگی حکومت کے لیے سبکی کا باعث بنی تو گیلانی کو کہا گیا کہ اگر شیخ رشید پروڈکشن آرڈر کے ذریعے قومی اسمبلی کے اجلاس میں آ کر بد زبانی سے پرہیز کریں گے تو انہیں رہا بھی کر دیا جائے گے۔ اس یقین دہانی کے بعد گیلانی کے پروڈکشن آرڈر پر عمل درآمد ہونا شروع ہو گیا اور شیخ رشید بھی جیل سے باہر آ گیا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ وقت ایک بار پھر بدل چکا ہے۔ یوسف رضا گیلانی ان دنوں چیئرمین سینیٹ ہیں۔ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے ا ور اپوزیشن میں تحریک انصاف بیٹھی ہے جو اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار کے دوران گرفتار رکن قومی اسمبلی کی پارلیمان کے اجلاسوں میں موجودگی کو ناممکن بناتی رہی۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اس معاملے میں بدترین ریاستی چمچے ثابت ہوئے جو اصول نام کی کسی چیز کو نہیں جانتے تھے۔ لیکن وقت بہت ظالم ہے۔ ان دنوں تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چودھری 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام پر جیل میں ہیں۔ لیکن وہ منتخب سینیٹر ہیں لہازا تحریک انصاف نے ان کی موجودگی کا مطالبہ کیا تو یوسف رضا گیلانی نے 13جنوری کو انکا پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا۔ جب ان کے حکم پر عمل نہ ہوا تو گیلانی نے سینیٹ کے اجلاسوں کی صدارت کرنا ویسے ہی چھوڑ دی جیسے بطور سپیکر قومی اسمبلی محترمہ کی دوسری حکومت کے دوران کیا کرتے تھے۔

اس دوران 6 مارچ کو حکومت نے تحریک انصاف کے ایک اور سینیٹر عون عباس بپی کو گرفتار کر لیا۔ پولیس اگر کسی رکن پارلیمان کو گرفتار کرے تو اسکی اطلاع قومی اسمبلی کے سپیکر یا سینیٹ کے چیئرمین کو فراہم کرنا لازمی ہے۔ لیکن عون عباس ہی کے حوالے سے اس روایت کو بھی بھلادیا گیا۔ چنانچہ یوسف رضا گیلانی طویل وقفے کے بعد جمعہ کے روز میڈیا کے روبرو آئے اور واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ وہ ہفتے کو سینیٹ کے ہونے والے اجلاس میں اعجاز چودھری اور عون عباس بپی کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کرچکے ہیں۔ لہازا ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔

نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ ہفتے کی صبح میں سینیٹ پہنچا تو مقصد صرف یہ دیکھنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی میں اپنا عہد نبھانے کا دم خم باقی رہ گیا ہے یا نہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی کہ چیئرمین سینیٹ نے نتائج کی پروا کیے بغیر اپنا قول نبھایا۔ عون عباس سینٹ اجلاس میں پیش ہو کر تقریر کر رہے تھے۔ چونکہ سینیٹر اعجاز چوہدری ہھر پیش نہ کیے گئے لہازا چیئرمین گیلانی نے رولنگ دیتے ہوئے اعجاز چوہدری کا معاملہ سینیٹ کی استحقاق کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

Back to top button