کیا افغان باشندوں کو پاکستان سے نکالنے پر UN کی تشویش جائز ہے؟

اقوام متحدہ نے اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی سے افغان باشندوں کی مسلسل گرفتاریوں اور ملک بدری کے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار تو کیا یے لیکن ہو این شاید بھلا بیٹھا ہے کہ حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم افغان باشندوں کو 28 فروری تک پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی تھی جو 31 مارچ کو ختم ہونے جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں موجود 30 لاکھ افغانوں میں سے نصف سے زیادہ کے پاس متعلقہ اور ضروری دستاویزات نہیں ہیں لہذا یہ سب اس وقت ملک بدری کے خدشات سے دوچار ہیں۔ افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ گھروں پر پولیس کے روزانہ چھاپوں کے سائے میں مسلسل خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ اگر وہ افغانستان واپس بھیجے گئے تو انھیں قتل ہو جانے کا خدشہ ہے۔ ان میں وہ خاندان بھی شامل ہیں جو امریکہ کے اس آبادکاری کے پروگرام کا حصہ ہیں، جسے ٹرمپ انتظامیہ نے معطل کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ صدر بائیڈن نے ان افغان باشندوں کو امریکہ میں آباد کرنے کا منصوبہ دیا تھا جنہوں نے امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران بطور مخبر مدد کی تھی۔ تاہم اب صدر ٹرمپ نے اس منصوبے کو معطل کر دیا ہے۔ ایسے تمام افغان باشندے افغانستان میں طالبان کے حکمران بننے کے بعد سے پاکستان میں مقیم ہیں۔
اسلام آباد میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی نمائندہ فلپا کینڈلر کہتی ہیں کہ پاکستان بھی افغان باشندوں کی نقل مکانی کے پلان کے منسوخ ہونے سے مایوس ہوا ہے اور اب انہیں مزید اپنی سرزمین پر پناہ دینے کو تیار نظر نہیں آتا۔ اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کا کہنا ہے کہ فروری کے پہلے دو ہفتوں میں 930 افغان باشندوں کو پاکستان سے افغانستان واپس بھیجا گیا، جو دو ہفتے پہلے کی تعداد سے دوگنا ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی سے ملک بدر کیے جانے والوں میں سے کم از کم 20 فیصد افغانیوں کے پاس اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی دستاویزات تھیں، یعنی انھیں بین الاقوامی تحفظ کے ضرورت مند افراد کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔
لیکن پاکستان پناہ گزینوں کے کنونشن کا حصہ نہیں ہے اور ماضی میں کہہ چکا ہے کہ وہ ملک میں مقیم افغانوں کو پناہ گزینوں کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ حکومت پاکستان نے کہا ہے کہ اس کی پالیسیوں کا ہدف تمام غیر قانونی غیرملکی شہری ہیں اور انھیں ملک چھوڑنے کے لیے دی گئی 31 مارچ کی آخری تاریخ آنے والی ہے۔
بہت سے افغان اس صورتحال سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویزا کا عمل مشکل ہو سکتا ہے۔ اسلام اباد میں مقیم ایسی ہی ایک افغان خاتون نبیلہ کے گھر والوں کا خیال ہے کہ ان کے پاس صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یے چھپ جانا۔ ان کے والد حامد نے 2021 میں طالبان کے قبضے سے پہلے، افغان فوج میں خدمات انجام دی تھیں۔ وہ اپنی بےخواب راتوں کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا ’میں نے اپنے ملک کی خدمت کی اور اب میں بیکار ہوں۔ اس کام نے مجھے برباد کر دیا ہے۔‘
اس کے خاندان کے پاس ویزا نہیں ہے اور وہ دوبارہ آبادکاری کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہیں۔ اب تو اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی ان کی فون کالز کا جواب بھی نہیں دیتی۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے مطابق جنوری 2025 میں پاکستان بھر میں 1245 افغانوں کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا جو پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں دوگنی تعداد ہے۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے افغان پناہ گزینوں کو پناہ دیتا آیا ہے لیکن سرحد پار سے ہونے والے حملوں نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ پاکستان ان حملوں کا الزام افغانستان میں مقیم شدت پسندوں پر لگاتا ہے جس کی طالبان حکومت تردید کرتی ہے۔