کیا بنگلہ دیش میں تحریک انصاف بنانے کا تجربہ کامیاب ہو پائے گا؟

اگست 2024  میں بنگلہ دیش کی طاقتور خاتون وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اقتدار چھوڑنے کے بعد فرار ہو کر بھارت چلی گئی تھیں، تب سے بنگلہ دیش کے کا سیاسی منظر یوں الٹ پلٹ ہوا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ حسینہ واجد حکومت کے خاتمے سے صرف دو مہینے پہلے تک کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ 15 سال سے بنگلہ دیش پر حکمران شیخ حسینہ یکایک کسی بوسیدہ ناکارہ درخت کی طرح اکھاڑ پھینک دی جائیں گی۔

مگر ایسا ہوا اور بنگلہ دیش کے عوام نے حیران کن عزیمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا زبردست احتجاج کیا کہ حسینہ واجد کی حکومت اپنے تمام تر ظلم، سفاکی اور سنگدلانہ جرائم کے باوجود کسی تنکے کی طرح اس طوفان میں بہتی چلی گئیں۔ آج یہ پوزیشن ہے کہ پچھلے 7 ماہ میں ملک سے عوامی لیگ اور حسینہ واجد خاندان کے تمام نقوش مٹانے کی کوشش جاری ہیں۔ ان کےوالد شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے تو فوری طور پر پاش پاش کر دیے گئے۔ حسینہ واجد نے شیخ مجیب کو بنگلہ دیش کے بانی کے طور پر پیش کیا تھا، عوامی نفرت اس قدر بڑھ گئی کہ اسی مجیب الرحمان کے آبائی گھر کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔

سینیئر صحافی اور کالم نگار عامر خاکوانی اپنی تازہ تحریر میں بنگلہ دیش کا موجودہ حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوامی لیگ کے بیشتر رہنما چھپ چھپا کر جنگلوں میں سفر کر کے بھارت چلے گئے، جو بچے کھچے ملک میں ہیں، وہ خاموشی سے سر چھپائے حالات سازگار ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ حسینہ واجد حکومت نے جو جرائم کیے، ہزاروں کو جیلوں میں پھینکا، نہتے مظاہرین پر گولیاں چلائیں، ان کیسز کے مقدمات عوامی لیگ رہنماؤں پر عائد ہیں۔ عوامی لیگ پر پابندی لگ چکی ہے اور حکومتی وزرا اعلانات کر رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں عوامی لیگ حصہ نہیں لے سکے

اس وقت بنگلہ دیش میں ایک غیر جانبدار نگران حکومت ہے جس کی سربراہی نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور چھوٹے قرضے دینے کے حوالے سے مشہورگرامین بنک کے سربراہ ڈاکٹر یونس کر رہے ہیں۔ ان کی کابینہ میں البتہ دو طلبہ رہنما بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ حسینہ واجد کے خلاف احتجاجی تحریک دراصل یونیورسٹی، کالج کے طلبہ نے چلائی تھی، نوجوانوں نے اسے لیڈ کیا تھا، تاہم بعد میں دیگر عوامی حلقے بھی شامل ہوئے۔ اسی وجہ سے نوجوان طلبہ اپنے آپ کو اس تبدیلی کا کسٹوڈین سمجھتے ہیں۔ انہی طلبہ اور نوجوانوں نے باقاعدہ سیاسی جماعت بنا لی ہے۔ نئی جماعت جمہوری طلبہ کونسل میں وہی طلبہ سرفہرست ہیں جنہوں نے عوامی احتجاجی تحریک چلائی تھی۔ مشہور طلبہ رہنما ناہید رانا جو حکومت میں مشیر بن گئے تھے، وہ مستعفی ہو کر اس جماعت کی قیادت کر سکتے ہیں، تاہم جیسا کہ اس طرح کے معاملات میں ہوتا ہے، نئی جماعت کی تشکیل سے پہلے ہی کچھ اختلافات بھی نظر آئے، بعض طلبہ رہنما الگ ہوگئے اور شاید وہ الگ سے کوئی دھڑا بنائیں۔ تاہم یہ طلبہ جماعت اس لیے اہم اور قابل ذکر ہے کہ اس کا ایجنڈا عوامی ہے اور ان سے خاصی توقعات بھی وابستہ ہیں۔

بنگلہ دیش میں روایتی طور پر دو سیاسی جماعتیں بڑی اور طاقتور رہی ہیں۔ شیخ مجیب الرحمان مرحوم کی جماعت عوامی لیگ جس کی قیادت پچھلے 30 برسوں سے ان کی بیٹی حسینہ واجد کر رہی ہیں۔ حسینہ واجد پچھلے 15 برس مسلسل وزیراعظم رہیں، تاہم وہ 90 کے عشرے میں بھی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ دوسری بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یعنی بی این پی ہے جس کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا ہیں۔ ان کے خاوند جنرل ضیا الرحمان بھی ملک کے سربراہ رہ چکے ہیں، ان کے قتل کے بعد خالدہ ضیا سیاست میں آئیں۔ خالدہ ضیا دو مرتبہ وزیر اعظم بن چکی ہیں۔ حسینہ واجد کی حکومت میں انہیں کرپشن پر سزا سنائی گئی تھی اور وہ بیماری کے باوجود 6 سال سے اسیر تھیں۔

ان دونوں جماعتوں کو آپ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سمجھ لیں۔ یعنی جو منظر نامہ ہمارے ہاں سنہ 2008 یا سنہ 2010 میں تھا۔ سابق فوجی آمر جنرل ارشاد کی پارٹی کی صورت میں ایک چھوٹا ناقابل ذکر گروپ بھی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی بھی اپنا ایک خاص ووٹ بینک رکھتی ہے اور ماضی میں وہ پارلیمنٹ کی کچھ نشستیں جیتتی رہی ہے۔

جماعت اسلامی خالدہ ضیا کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بھی بنا چکی ہے۔ تاہم پچھلے چند برسوں سے جماعت اسلامی کو حسینہ واجد حکومت نے سخت جبر کا نشانہ بنا رکھا تھا، جماعت پر پابندی عائد ہے، اس کے بہت سے کارکن اور رہنما اسیر تھے جبکہ کئی رہنماؤں کو غیر شفاف ٹرائل کے ذریعے پھانسی کی سزائیں بھی دی گئیں۔

بنگلہ دیشی طلبہ کو اپنے ملک کے سیاسی منظر نامے میں خلا اور ایک نئی جماعت کی گنجائش محسوس ہو رہی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ایک گروپ پرو انڈیا عوامی لیگ کا ہے جسے اقلیتی ہندو آبادی کی حمایت بھی حاصل ہے، جبکہ عوامی لیگ نے سرکاری ملازمتوں میں 50 فیصد کوٹے کے ذریعے جو اپنے لوگ نوازے تھے، وہ بھی ان کے ہمدرد ہیں۔ دوسرا بڑا گروپ خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کا ہے۔ اسے اینٹی انڈیا اور پرو پاکستان سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت توقع ہے کہ اگر الیکشن جلد ہوگئے تو بی این پی بڑی اکثریت سے جیت جائے گی، کیونکہ عوامی لیگ تو عملی طور پر میدان میں موجود ہی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ خالدہ ضیا ضعیف اور علیل ہیں۔ وہ وہیل چیئر پر ہیں اور انہیں دیگر طبی عوارض کے ساتھ جگر کے سکڑنے کا مرض بھی لاحق ہے۔ حسینہ واجد حکومت ختم ہوتے ہی وہ علاج کے لیے لندن چلی گئی تھیں، دو دن قبل انہوں نے وہاں سے آن لائن بنگلہ دیش میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا ہے اور ڈاکٹر یونس سے مطالبہ کیا کہ وہ بنیادی ریفارمز تک محدود رہیں اور جلد الیکشن کرادیں۔ کہا جارہا ہے کہ پارٹی عملی طور پر خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمان چلا رہے ہیں، تاہم ان پر کرپشن کے خاصے الزامات ہیں۔

عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش نوجوانوں نے اپنی جماعت اینٹی کرپشن ایجنڈے کے تحت بنائی ہے۔ ان کے بنیادی تصورات میں مساوات، انصاف اور گڈ گورننس شامل ہیں۔ ان نعروں کے باوجود یہ بہرحال حقیقت ہے کہ یہ طلبہ بنگالی نیشنسلٹ نہیں بلکہ بنگلہ دیشی نیشنسلٹ ہیں۔ یہ وہ باریک فرق ہے جو بنگلہ دیشی سیاست میں اہم ہے۔ بنگالی نیشنسلٹ پرو انڈیا ہیں جبکہ بنگلہ دیشی نیشنسلٹ اپنے ملک کے مفادات پہلے رکھنے اور بھارتی تسلط سے مزاحمت کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ ان طلبہ کے ساتھ اسلامی نقطہ نظر رکھنے والے بھی شامل ہیں اور سیکولر بھی، یہ تو ہندو اقلیت کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

مختلف اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیشی طلبہ نے پچھلے چند ماہ میں بڑی غور اور عرق ریزی کے ساتھ دو مختلف ماڈلز اسٹڈی کیے۔ انہوں نے ترکیہ میں صدر طیب اردوان کے تجربے کو سٹڈی کیا، اس تجربے پر لکھی کتابیں بھی منگوائی گئیں۔ طیب اردوان نے جس طرح ترکیہ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے فوج کو پیچھے دھکیلا اور روایتی جماعتوں کو شکست دے کر 25 برسوں سے اقتدار میں ہیں، یہ بات ان کے لیے دلچسپی کی حامل ہے۔

عامر خاکوانی بتاتے ہیں کہ دوسرا ماڈل جس میں بنگلہ دیشی طلبہ کی نئی جماعت کی سب سے زیادہ دلچسپی ہے، وہ تحریک انصآف کا ماڈل ہے۔ وہ عمران کی سیاست کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اور بیرون ملک موجود انصافی کارکنوں سے بھی ان نوجوانوں کا رابطہ ہوا۔ بنگالی نوجوان اس بات سے متاثر ہیں کہ عمران خان نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پرانے ، روایتی سیاسی بیانیہ کو اپنے نئے اور پرکشش بیانیے سے اڑا کر رکھ دیا۔ جس طرح سوشل میڈیا کو استعمال کیا گیا، جیسے نوجوانوں کے دلوں میں گھر کیا گیا اور پھر خواتین اور بڑی عمر کے ووٹروں میں بھی اپنی جگہ بنائی گئی، یہ سب بنگلہ دیشی نئی جماعت کے لیے بہت ترغیب آمیز اور پرکشش ہے۔

بنگلہ دیشی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیشی طلبہ کو عمران جیسے کرشماتی لیڈر کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں ویسا کوئی لیڈر مل جائے تو وہ بھی کرشمہ دکھا سکتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہس اگر ڈاکٹر یونس بھی اس پارٹی کی قیادت سنبھال لیں تو اسے فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن ڈاکٹر یونس ضعیف العمر ہیں اور شاید وہ زیادہ ایکٹو سیاست کرنے کے موڈ میں نہیں۔ البتہ اگر نوجوانوں کو عوامی پذیرائی ملی تو ممکن ہے ڈاکٹر یونس ایسا کرنے کا سوچیں، لیکن انہیں نگران حکومت چھوڑنا پڑے گی۔ لہازا دیکھنا یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ’تحریک انصاف‘ ماڈل بنانے کا نیا تجربہ کس قدر کامیاب رہے گا؟

Back to top button