اسلام آباد ہائی کورٹ کے عمراندار ججز کا چیف جسٹس پر بڑا حملہ

ملک کے تین صوبوں سے ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کے بعد سے اِسلام آباد ہائیکورٹ تنازعات کی زد میں ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے تین ججوں کی تعیناتی کے بعد ججز کے مابین جاری کشیدگی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے عمراندار ججز جوڈیشل سسٹم میں روڑے اٹکانے کا کوئی موقع ضائع کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ تازہ پیشرفت کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا مقدمات کی ایک بینچ سے دوسرے بینچ کو منتقلی ایک اور وجہ تنازع بن چُکی ہے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے اِس سلسلے میں قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے باقاعدہ آرڈر جاری کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ ججز کے مابین تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب یکم فروری 2025 کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو بذریعہ ٹرانسفر اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعینات کیا۔ اُن کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس خادم حسین سومرو اور بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس محمد آصف کو بھی اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کیا گیا۔اس ٹرانسفر کے بعد اِسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اُس وقت چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق کے سامنے ریپریزنٹیشن فائل کی کہ بذریعہ ٹرانسفر ججز لائے جانے سے اُن کی سنیارٹی متاثر ہو سکتی ہے۔ لیکن چیف جسٹس کی جانب سے ریپریزنٹیشن مسترد کر دی گئی جس کے بعد اِسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جو اگلے ہفتے 14 اپریل سماعت کے لیے مقرر ہے۔ تاہم اس سے قبل ہی جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔
جسٹس سرفراز ڈوگر کی بطور قائمقام چیف جسٹس تعیناتی عمرانڈو ججز کو بالکل ہضم نہیں ہو اور وہ مسلسل انھیں ناکام کرنے کے درپے دکھائی دیتے ہیں۔ عمرانڈو ججز اور چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے مابین جاری تناو میں مزید شدت اس وقت دکھائی دی جب قائمقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے احکامات پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق کے پاس زیر سماعت ایک مقدمے کو جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ میں منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازاں اسلام آباد میں سرکاری ملازمتوں بارے ایک اور مقدمہ جسٹس محسن اختر کیانی سے لےکر دوسرے بینچ کو بھجوا دیا گیا۔
اسی طرح سے 29 مارچ کو جسٹس بابر ستّار نے ایک مقدمہ سننے سے معذرت کی جبکہ قائم مقام چیف جسٹس کی جانب سے وہی مقدمہ اُنہیں دوبارہ سماعت کے لئے بھجوا دیا گیا، جس پر جسٹس بابر ستّار نے آبزرویشن دی کہ مقدمہ سننے نہ سننے کا اختیار کسی جج کا یا ڈپٹی رجسٹرار کا ہوتا ہے چیف جسٹس اِس طرح کوئی مقدمہ دوبارہ سماعت کے لیے نہیں بھجوا سکتا۔
بات یہاں تک نہ رکی اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کے بنچ تبدیلی کے اختیارات پر سوالات بھی اٹھا دئیے۔ بینچ نے قرار دیا کہ گائیڈ لائنز جاری کر دیں کہ ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق چیف جسٹس کا اختیار روسٹر کی منظوری جبکہ کیسز کی مارکنگ اور انہیں فکس کرنا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا اختیار ہے، کسی بینچ سے کیس واپس لے کر دوسرے بینچ کے سامنے مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ قانونی جواز کے بغیر سنگل سے ڈویژن بینچ میں کیس ٹرانسفر کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے کہا کہ جب تک ہائیکورٹ رولز پر فل کورٹ مزید رائے نہ دے، ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل انہی گائیڈ لائنز پر عمل کرے۔ فیصلے میں آصف علی زرداری اور ٹیریان وائٹ کیسز کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ ڈویژن بینچ نے لکھا ہے کہ آصف زرداری کیس میں طے ہو چُکا ہے کہ جج نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیس سنے گا نہیں سنے گا۔ اور اسی طرح سے ٹیریان وائٹ کیس میں لارجر بینچ یہ طے کر چُکا ہے کہ چیف جسٹس بینچ تشکیل دے سکتا ہے اُس کی تشکیل نو نہیں کر سکتا، نہ ہی اُس بینچ کی ساخت میں کوئی ترمیم کر سکتا ہے۔ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب متعلقہ جج سماعت سے معذرت کرے یا وجوہات کے ساتھ بینچ کی دوبارہ تشکیل کا کہے۔
جیل میں عمران سے ملنے والے امریکیوں کی ملاقات کیوں ناکام ہوئی ؟
مبصرین کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے مابین اختلافات اب فیصلوں تک آ چکے ہیں اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے دنوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں کوئی نیا آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔