غیرقانونی افغان شہریوں کوپاکستان بدرکرنےکی4وجوہات کونسی؟

وفاقی حکومت کی جانب سے نومبر 2023 سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کیلئے جاری مہم کے تحت لاکھوں افغانوں کو پاکستان بدر کیا جا چکا ہے۔ پہلے مرحلے میں پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے مختلف واقعات میں ’ افغان شہریوں‘ کے ملوث ہونے کی اطلاعات غیر قانونی افغانوں کو ملک بدر کیا گیا تھا تاہم دوسرے مرحلے میں ان پناہ گزینوں کو بھی ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود ہیں۔

تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نےکئی دہائیوں سے پاکستان میں قیام پزیر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا واقعی افغانی شرپسندوں اور دہشتگردوں کی سہولتکاری کرتے ہیں؟کیا افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی سے ملک میں قیام امن ممکن ہے؟

مبصرین کے مطابق افغانستان میں جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں پاکستان میں ’دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ افغان حکومت کی پناہ میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان اقر غیر قانونی طور پر مقیم افعان شہری بہت سے واقعات میں ملوث پائے گئےہیں۔ جس کے بعد افغان باشندوں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

لیکن سکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزین کو نکالنے کا فیصلہ موجودہ دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے نہیں کیاگیا بلکہ یہ بحث پشاور کے آرمی پبلک سکول پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سے جاری ہے کیونکہ اس وقت ٹی ٹی پی پر ’افغانستان میں اس مکروہ حملے کی منصوبہ بندی‘ کا الزام لگایا گیاتھا۔ عامر رانا کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے محسوس کیا کہ ’افغان مہاجرین‘ اور ان کے کیمپ وہ جگہیں ہیں جہاں ’دہشت گردانہ کارروائیوں‘ کی منصوبہ بندی ہوتی ہیں اور انھیں پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’اس وقت پاکستانی سکیورٹی اداروں نے فیصلہ کیا کہ افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکالنا ضروری ہو گیا ہے۔‘

اگرچہ پاکستان اپنی سرزمین سے بڑے پیمانے پر افغان باشندوں کو بے دخل کرنے کی بنیادی وجہ دہشت گردی کو قرار دیتا ہے تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس فیصلے کی بنیادی وجہ اسلام آباد اور طالبان حکومت کے درمیان بگڑتے تعلقات ہیں اور پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں نے پاکستان کو مجبور کیا ہے کہ وہ پناہ گزین کے معاملے کو کابل پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرے۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی بے دخلی کا فیصلہ مکمل طور پر سیاسی ہے کیونکہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے معاملے میں پاکستان کی مدد نہیں کر رہے اور اس کے جواب میں اسلام آباد انھیں مہاجرین واپس لینے کا کہہ رہا ہے، درانی کے مطابق پناہ گزینوں کی واپسی سے پاکستان کابل کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر آپ اچھے پڑوسی کی طرح برتاؤ نہیں کرتے تو ہم بھی آپ کے ’پابند‘ نہیں ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی اور سفارتی تنازعات کے علاوہ پاکستانی حکومت افغان پناہ گزین پر ’ریاست مخالف تحریکوں اور مظاہروں‘ میں حصہ لینے کا الزام بھی لگاتی ہے۔چاہے وہ اسلام آباد میں سیاسی جماعت ’پاکستان تحریک انصاف‘ کا احتجاج ہو جس کی وجہ سے سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں یا مختلف علاقوں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے اور احتجاج، پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ دونوں میں افغان شہریوں نے شرکت کی اور ملک میں سیاسی افراتفری پھیلانے کی کوشش کی۔حکومت کی طرف سے پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگانے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ اسے پاکستان مخالف اقدامات میں ’افغان شہریوں‘ کی حمایت حاصل تھی۔

دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے افغان باشندوں کا خیال ہے کہ پاکستان بین الاقوامی تنظیموں اور دوسرے ممالک کی جانب سے مالی امداد میں کمی یا بندش کی وجہ سے پناہ گزین کو اپنی سرزمین سے نکال رہا ہے۔

سیاسی اور سیکورٹی تجزیہ کار عرفان اشرف کے مطابق ’افغان مہاجرین کو رکھنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ کچھ ادارے اور افسران پناہ گزینوں کی دی جانے والی امداد سے فائدہ اٹھاتے تھے۔‘اب یو این ایچ سی آر کی جانب سے پہلے جیسی امداد نہیں دی جارہی ہے اور نہ ہی کیمپوں کے لیے عرب ممالک سے زکوٰۃ اور عطیات آرہے ہیں ’اب یہ مہاجرین ان اداروں اور لوگوں کے مفاد میں نہیں ہیں، اس لیے انھیں ملک بدر کیا جا رہا ہے۔‘افغانستان کے لیے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یو این ایچ سی آر ان پناہ گزینوں کی امداد سے ہاتھ اٹھا چکا ہے اور اسی وجہ سے وہ پاکستان میں ’اپنی پناہ گزین کی حیثیت کھو چکے ہیں‘ اور اب ان کی ملک بدری کو جائز سمجھا جا رہا ہے۔

Back to top button