سیز فائر کے باوجود پاک انڈیا اور اسرائیل ایران جنگیں کیوں چھڑ سکتی ہیں ؟

ایران پر اسرائیلی حملے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ نے شاطرانہ چال چلتے ہوئے خود بھی ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کردیے، لیکن جب اسکے باوجود جنگ میں ایران کا پلہ بھاری پڑتا دکھائی دیا تو اسرائیل کو جھاڑتے ہوئے سیز فائر بھی کروا دیا۔ تاہم جس طرح سیز فائر کے باوجود پاک بھارت جنگ کا خطرہ موجود ہے اسی طرح جنگ بندی کے باوجود اسرائیل اور ایران کے مابین دوبارہ کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ آگ بجھانے کے دوران ملبے میں ایک چھوٹی سے چنگاری بھی سلگتی رہے تو شعلوں کے دوبارہ بھڑکنے کا امکان برقرار رہتا ہے۔ لیکن امریکی صدر ٹرمپ پیچیدہ ترین معاملات کو بھی سطحی انداز میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیئے کہ انہوں نے حالیہ پاک-بھارت جنگ کو ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کرنے سے روکنے کے لئے کلیدی کردار ادا کیا۔ پاک انڈیا جنگ 10مئی 2025 کو یقینا بند ہوگئی تھی لیکن بھارت مصر ہے کہ اس کے آپریشن سندور میں صرف ’’وقفہ‘‘ آیا ہے اور ابھی ختم نہیں ہوا۔ بھارت جنگ بندی کو ’’وقفہ‘‘ نہ بھی ٹھہرائے تو پاک-بھارت کشیدگی کی وجوہات اپنی جگہ قائم ودائم ہیں۔

یاد رہے کہ قیامِ پاکستان کے چند ہی ماہ بعد کشمیر کا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے حل کے لئے پاکستان نہیں بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل گیا۔ اسی نے امن کے نگہبان ادارے کو یقین دلایا کہ کشمیری عوام کی رائے جانچنے کا اہتمام ہوگا۔ اس کے نتیجے میں یہ فیصلہ سامنے آئے گا کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ لیکن اب کئی دہائیاں گزرچکی ہیں۔اس وعدے پر عمل نہیں ہوا۔ گویا ملبے میں سلگتی چنگاری اپنی جگہ موجود ہے۔ کشمیر کا قضیہ حل نہ ہونے کے باوجود بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا ہے۔ اگر اس کی ’’معطلی‘‘ مستقل شکل اختیار کر گئی تو پاکستان بتدریج صحرا میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت ہمارے ہاں کا موسم غیر معمولی انداز میں گرم ہورہا ہے۔ سردی بس آکر چلی جاتی ہے اور آسمان سے برستی برف میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ بے موسمی بارشیں اپنی جگہ عذاب کی صورت اختیار کررہی ہیں۔ ایسے عالم میں سندھ طاس معاہدے کی ’’معطلی‘‘ کسی بھی وقت پاک-بھارت جنگ کا ایک اور رائونڈ یقینی بنا رہی ہے۔ نصرت کا کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ رکوانے کے بعد امریکی صدر نے رات گئے ایک ٹویٹ لکھا اور خوشی سے مغلوب ہوتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ اب جنگ بند ہو گئی ہے۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ ایران اور اسرائیل قاصدوں کے ذریعے انہیں پیغام بھجوارہے تھے کہ ہماری جنگ ختم کروا دو۔

یاد رہے کہ اسرائیل نے حالیہ جنگ ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے مسلط کی تھی۔ لیکن جدید ترین میزائلوں کی مسلسل بارش کے باوجود وہ اپنے ہدف کے حصول میں قطعاََ ناکام رہا۔ بالآخر 20 اور 21 جون کی درمیانی رات امریکہ کے B-2 طیارے اڑے۔ ریڈار کو غچہ دینے والے یہ جدید ترین طیارے 30ہزار پائونڈ وزنی بارودی مواد کے ساتھ ایران کی فضا میں داخل ہوئے۔ انہوں نے وہاں کی تین ایٹمی تنصیبات کو جو زیر زمین کئی فٹ گہری خندقوں میں بنائی گئی تھیں ’’تباہ‘‘ کردیا۔ قصہ مختصر اگر امریکی دعوے پر اعتبار کریں تو جو اہداف اسرائیل کئی دنوں تک میزائلوں کی بارش کے باوجود حاصل نہ کر پایا امریکہ نے محض چند گھنٹوں کی بمباری سے حاصل کرلیئے۔ زیر زمین کئی برسوں کی محنت و لگن سے بنائی ایٹمی تنصیبات کی مبینہ تباہی کے بعد اسرائیل اور امریکہ کے پاس ایران پر فضائی حملے جای رکھنے کا جواز ختم ہو گیا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اب امریکی میڈیا یہ رپورٹ کر رہا ہے کہ امریکی فضائی حملے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات کو تباہ کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو پائے۔ یوں صدر ٹرمپ ایک سپر پاور کے سربراہ ہونے کے ناطے شرمندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میری دانست میں ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو ایران بھارت کی طرح بددلی سے قبول کرنے کو مجبور محسوس کرے گا۔ ملبے میں چنگاری اپنی جگہ موجود ہے جو چند مہینوں یا سالوں کے بعد دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔ اگر جنگ بندی پر واقعتا عمل ہوگیا تو اسرائیل میں نیتن یاہو کو سیاسی اعتبار سے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ انہیں اپنی حکومت کے قیام کے لئے ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانا پڑی تھی جو ’’عظیم تر اسرائیل‘‘کی دیوانوں کی طرح خواہاں ہیں۔ زبور اور توریت میں بیان کردہ ’’اسرائیل‘‘ آج کے شام سے عراق تک پھیلے کئی علاقوں پر مشتمل ہے۔ ایران کم از کم ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کا وارث ہے۔ وہ بھی ان علاقوں کو اپنی ’’سلطنت‘‘ کا حصہ شمار کرتا ہے۔ ان ہی علاقوں پر ترکی کی خلافت عثمانیہ نے بھی 600برس تک حکومت کی ہے۔ لہٰذا تاریخ کے اسیر ان ممالک کے مابین ’’دائمی امن‘‘ کے قیام کے لئے امریکی صدر کا محض ایک ٹویٹ کافی نہیں ہے۔ ایران نے سیزفائر تسلیم تو کر لیا ہے لیکن جلد یا بدیر اسے بھی نیتن یاہو کی طرح اپنے عوام کو جواب دینا ہو گا کہ وہ کونسا ہدف حاصل کرنے کے بعد جنگ بندی پر آمادہ ہوا۔

تباہی کے دعوے جھوٹے قرار دینے والا امریکی میڈیا اور ٹرمپ آمنے سامنے

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ امریکی صدر تاریخ سے قطعاََ لاتعلق شخص ہے جو ’’موجود‘‘ کی بنیاد پر سودے بازی کرنے کا عادی ہے۔ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کا صدر ہوتے ہوئے وہ پوری دنیا کو اپنی رعایا کی طرح گردانتے ہوئے بادشاہوں جیسے فیصلے کرلیتا ہے۔ پاک-بھارت جنگ رکوانے کے بعد اس نے ملبے میں موجود چنگاری یعنی مسئلہ کشمیر اور سندھ طاس معاہدے جیسے کلیدی مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لئے فالو اپ اقدامات نہیں کئے جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا۔ یعنی چنگاری کو ملبے تلے سلگنے دیا جا رہا ہے۔ موصوف نے ایران اسرائیل کی جنگ بھی اسی انداز میں ’’ختم‘‘ کی ہے۔ لہذا سلگتی چنگاریاں کسی بھی وقت دوبارہ آگ کی صورت میں بھڑک سکتی ہیں۔

Back to top button