جسٹس ملک قیوم کے آڈیو سکینڈل کی کہانی

آج کل ملکی سیاست میں چودھری پرویز الٰہی اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کی آڈیوز نے تہلکہ مچا رکھا ہے اور لیگی قیادت اور وکلاء رہنماؤں کی طرف سے آڈیوز بارے تحقیقات اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ پاکستانی کی سیاسی تاریخ میں اعلی عدلیہ کے ججوں کی لیک شدہ متنازعہ ویڈیوز اور آڈیوز ہمیشہ سے زبان زد عام رہی ہیں جن کے ذریعے کئی ہوشربا انکشاف ہوئے اور کئی ججوں کو اسی بنیاد پر گھر بھی جانا پڑا۔ جسٹس ملک قیوم کا شمار بھی ایسے ججز میں ہوتا ہے۔ تاہم جسٹس قیوم ملک آڈیو لیک سامنے آنے پر کسی کارروائی سے بچنے کیلئے اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ماضی میں نواز شریف کی وزارت عظمی کے دوران سابق جج ملک قیوم کی ٹیلیفونک گفتگو کی آڈیو بھی لیک ہو چکی ہے۔ملک قیوم اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے
ملک قیوم پاکستان کے نظام انصاف اور سیاست دونوں میں اپنے مختلف کردار کی بنا پر شہرت یافتہ رہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ملک قیوم آرائیں گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد جسٹس ملک محمد اکرم آرائیں بھی لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے۔ملک قیوم کا خاندان لاہور کا ایک بااثر گھرانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کے ایک بھائی پرویز ملک کا گزشتہ برس انتقال ہوا، وہ ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی رہے جبکہ دوسرے بھائی ڈاکٹر جاوید اکرم اس وقت پنجاب کے نگران وزیر صحت ہیں۔
نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت 1998 میں ملک قیوم، جو کہ سپریم کورٹ کے وکیل تھے، انہیں لاہور ہائی کورٹ کا ایڈہاک جج تعینات کیا گیا۔ شریف حکومت کے بنائے گئے احتساب کمیشن نے انہیں ہائیکورٹ میں احتساب کے مقدمات کے مختص جج کے طور پر نامزد کر دیا تھا اور ان کے ذمے احتساب ریفرنسز کو سننا تھا۔سیف الرحمن احتساب کمیشن کے سربراہ تھے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن ریفرنس ملک قیوم کی عدالت میں بھیجا۔ملک قیوم نے ابتدائی سماعت کے بعد ہی اس ریفرنس کو منظور کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کیا۔اس وقت پیپلزپارٹی نے ان کی جانبداری پر اعتراض کرتے ہوئے نقطہ اٹھایا کہ ان کے بھائی پرویز ملک نواز شریف کی لاہور کی چھوڑی ہوئی نشست سے بلامقابلہ ایم این اے منتخب ہوئے ہیں اس لیے ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔
نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں احتساب قانون کے تحت بننے والی احتساب عدالتیں ہائی کورٹ کے دو ججوں پر مشتمل ہوتی تھیں اور جسٹس قیوم اور جسٹس نجم الحسن پر مشتمل بینچ بینظیر بھٹو اور آصف زردای کے خلاف ایس جی ایس کوٹیکنا مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔سیف الرحمان اور جسٹس ملک قیوم کی ایس جی ایس کوٹینکا مقدمے میں بینظیر بھٹو اور آصف زراری کے مقدمات پر فون پر گفتگو ہوئی۔سیف الرحمان جو بعد میں مسلم لیگ نواز کے سینیٹر بھی رہے فون پر جج کو سزا دینے سے متعلق اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ہدایات پہنچا رہے تھے۔اس گفتگو کی آڈیو لیک ہوئی تو احتساب کے عمل پر کئی سوالات اٹھ گئے۔۔
بعد ازاں ایک آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی جس میں مبینہ طور پر شہباز شریف، جو اس وقت پنجاب کے وزیراعلی تھے، وہ انہیں بے نظیر اور آصف علی زرداری کو سزا سنانے پر مائل کر رہے تھے۔اس آڈیو ٹیپ نے ایک بھونچال برپا کر دیا اور بالاخر ملک قیوم کو اپنےعہدے سے استعفی دینا پڑا۔ تاہم آج تک اس آڈیو ٹیپ کی تحقیقات منظر عام پر نہیں آ سکی ہیں اور نہ ہی ملک قیوم نے خود اس ٹیپ کی تصدیق کی تھی۔ملک قیوم نے اس بڑے سکینڈل سے بچنے کے بعد وکالت شروع کردی اور پرویز مشرف کے فوجی دور حکومت میں اٹارنی جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
پرویز مشرف کے دورحکومت میں ملک قیوم سپریم کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے حامد خان کے امیدوار کو شکست دی تھی۔انہوں نے بطور صدر سپریم کورٹ بار پرویز مشرف سے ملاقات کی جس کو وکلا برادری نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا، تاہم اس کے بعد وہ عملی طور پر وکلا سیاست سے الگ ہو گئے۔سال 2007 میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے انہیں ملک کا اٹارنی جنرل مقرر کر دیا۔ اور ایک سال تک اس عہدے پر براجمان رہے۔ اس دوران انہوں نے مشرف کی طرف سے ہٹائے جانے والے ججوں کی بحالی کی بھر پور مخالفت کی۔ملک قیوم دیوانی مقدمات کی وکالت میں ملکہ رکھتے تھے۔ اور متعدد بار عدالتیں انہیں پیچیدہ آئینی اور قانونی معاملات پر عدالتی معاونت کے لیے طلب کرتی رہتی تھیں۔
بطور جج جسٹس قیم ملک نے آئی سی سی کی جانب سے قومی کرکٹ ٹیم میں مبینہ بدعنوانیوں سے متعلق ایک کمیشن کی سربراہی بھی کی اور ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی جس کو آج بھی جسٹس قیوم رپورٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔