کشمیرپرثالثی کی آفر:ٹرمپ نے مودی کو مشکل میں کیسے ڈال دیا؟

امریکی صدر ٹرمپ نے مودی کی فرمائش پر پاکستان کے ساتھ جنگ بندی تو کروا دی لیکن سیز فائر ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان کا پلہ بھاری تھا، لہذا ان پر پاکستان کے سامنے سرنڈر کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ صدر ٹرمپ نے سیز فائر کے اعلان پر مبنی ٹویٹ میں یہ میزائل بھی داغ دیا کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے مابین دہائیوں پرانا مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے ثالث بننے کو تیار ہیں۔ ٹرمپ کے اس ٹوئیٹ نے مودی کو دوہری مشکل میں مبتلا کر دیا ہے اور انہیں بھارتی اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
انڈیا میں دہائیوں سے ایسا دیکھا گیا ہے وزارتِ خارجہ میں اگر کوئی ایک چیز ممنوع رہی ہے تو وہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی ہے، بطور خاص پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر طویل عرصے سے جاری تنازعے میں یہ بات زیادہ اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اپنی غیر روایتی سفارتکاری کے لیے معروف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب دہلی کے لیے ایک حساس معاملے کو چھیڑ دیا تو ماہرین کو زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ امریکی ثالثی میں انڈیا اور پاکستان شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد ’مکمل اور فوری جنگ بندی‘ پر رضامند ہو گئے ہیں۔
بعد میں ایک اور پیغام میں انھوں نے کہا: ’میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر کام کروں گا تاکہ ایک ہزار سال بعد کشمیر کے معاملے کا کوئی حل نکالا جا سکے۔‘
واضح رہے کہ کشمیر کا تنازع سنہ 1947 میں برطانوی راج سے آزادی اور تقسیم ہند کے بعد قیام پاکستان سے شروع ہوا تھا۔ دونوں ممالک کشمیر پر اپنا اپنا مکمل دعویٰ پیش کرتے ہیں لیکن وہ صرف اس کے کچھ حصے پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں۔ لیکن کئی دہائیوں پر محیط دوطرفہ مذاکرات کے کئی ادوار کے باوجود کوئی حل سامنے نہیں آیا۔ کشمیر کو انڈیا اپنی ریاست کا لازمی حصہ سمجھتا ہے اور کسی بھی قسم کی بات چیت، بطور خاص تیسرے فریق کی ثالثی، کو مسترد کرتا ہے۔ تازہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب انڈیا نے گذشتہ ماہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملے کے بعد پاکستان میں مبینہ دہشت گردی کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔ اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔
انڈیا نے اس واقعے کا الزام پاکستان پر لگایا جسے اسلام آباد مسترد کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی مداخلت اس وقت سامنے آئی جب دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے درمیان تنازعہ مکمل جنگ کی شکل اختیار کرنے کے خطرے سے دوچار تھا۔ دونوں طرف سے لڑاکا طیاروں، میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال کیا جا رہا تھا اور دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ایک دوسرے کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں۔
اگرچہ امریکی ثالثوں اور سفارتی بیک چینلز نے بڑے پیمانے پر تصادم کو روکا، لیکن صدر ٹرمپ کی پیشکش نے دہلی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ سابق انڈین سیکریٹری خارجہ شیام سرن کا کہنا ہے کہ ’یقینی طور پر انڈیا اس پیشکش کو خوش آئند نہیں سمجھتا کیونکہ یہ ہمارے کئی برسوں کے طے شدہ مؤقف کے خلاف ہے۔‘
دوسری طرف اسلام آباد نے ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا یے ک ہم صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ جموں و کشمیر کے حل کی کوششوں کی حمایت کی پیشکش کو سراہتے ہیں۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو جنوبی ایشیا اور اس سے آگے امن و سلامتی پر سنگین اثرات ڈال سکتا ہے۔‘
2019 میں جب انڈیا نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تو اس کا موقف کشمیر پر سخت ہو گیا۔ اس کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے لیکن مودی سرکار اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ چنقنچہ صدر ٹرمپ نے بہت سے انڈینز کو ناراض کیا ہے۔ وہ ان کے بیان کو مسئلہ کشمیر کو ’بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے‘ کی کوشش سمجھتے ہیں۔ انڈیا میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے حکومت سے وضاحت طلب کی ہے اور واشنگٹن ڈی سی کی جانب سے سب سے پہلے ’جنگ بندی کا اعلان‘ کیے جانے پر آل پارٹی اجلاس کا مطالبہ کیا ہے۔
کانگریس پارٹی کے ترجمان جے رام رمیش نے کہا: ’کیا ہم نے تیسرے فریق کی ثالثی کے لیے دروازے کھول دیے ہیں؟ انڈین نیشنل کانگریس جاننا چاہتی ہے کہ کیا انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی رابطے دوبارہ بحال ہو رہے ہیں؟‘
یاد رہےکہ دہلی نے کئی برسوں سے اسلام آباد کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کر رکھا ہے، وہ پاکستان پر سرحد پار سے دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگاتا ہے۔ تاریخی طور پر انڈیا نے کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی کی مخالفت کی ہے۔ دوسری جانب پاکستان ہمیشہ سے کشمیر کے مسئلے پر تیسرے فریق کی ثالثی چاہتا تھو کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔ اب جبکہ ایک عالمی طاقت اس تنازع پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے تو پاکستان اسے اخلاقی فتح کے طور پر دیکھ رہاہے۔