ٹرمپ کی ثالثی مسترد کرنے کے بعد مودی اور ٹرمپ تعلقات خراب

صدر ٹرمپ کی جانب سے پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کے لیے بار بار ثالثی کی پیشکش اور بھارتی وزیراعظم مودی کی جانب سے مسلسل انکار کا نتیجہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کی صورت میں سامنے آیا جس کے بعد بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔
جنرل عاصم منیر سے ملاقات کرنے سے ایک روز پہلے صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم مودی سے ایک مرتبہ پھر فون پر رابطہ کیا اور انہیں پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کا مشورہ دیا۔ تاہم دونوں کی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے بتایا کہ مودی نے امریکی صدر پر واضح کیا کہ انڈیا مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کسی کی ثالثی کبھی قبول نہیں کرے گا۔ انڈیا کی جانب سے اس بیان کی اہمیت اس تناظر میں بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ امریکی صدر اور پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات سے چند گھنٹے قبل جاری کیا گیا۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے بیچ چار روزہ تنازعے کے بعد سے متعدد بار انڈیا اور پاکستان کے بیچ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ اب تک وائٹ ہاؤس کی جانب سے وکرم مسری کے اس بیان پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے۔ وکرم مسری نے یہ بھی کہا کہ ’وزیر اعظم مودی نے واضح طور پر ٹرمپ کو بتایا کہ تنازع کے دوران کسی بھی سطح پر امریکہ اور انڈیا کے تجارتی معاہدے پر یا پھر انڈیا اور پاکستان کے بیچ امریکی ثالثی کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔‘ یہ بیان اس تناظر میں اہمیت رکھتا ہے کہ ٹرمپ کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع ختم کرنے میں امریکہ نے کردار ادا کیا۔ پاکستانی حکام نے امریکی دعوے کی حمایت کی ہے تاہم انڈیا نے اس کی مسلسل تردید کی ہے۔
وکرم مسری نے کہا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان عسکری کارروائی روکنے کے لیے بات چیت براہ راست انڈیا اور پاکستان کی افواج کے درمیان پہلے سے موجود رابطوں کے نظام کے تحت ہوئی۔‘ کشمیر کا خطہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقسیم ہے اور دونوں دہائیوں تک باہمی بات چیت کے باوجود کوئی حل نہیں نکل پایا۔ انڈیا کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور کسی قسم کے مذاکرات، خصوصا کسی تیسرے فریق کے ذریعے، کو رد کرتا ہے۔ حال ہی میں تب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی تھی جب انڈیا نے 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا تھا۔ پاکستان نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
تاہم مئی میں انڈیا نے پاکستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں حملے کیے اور دعویٰ کیا کہ اس کا ہدف شدت پسندی کے مراکز تھے۔ اس کارروائی کے بعد چار روز تک دونوں جانب سے فوجی کارروائیاں ہوتی رہیں لیکن 10 مئی کو ٹرمپ نے اعلان کیا کہ دونوں ملک امریکہ لی کوششوں کے بعد جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ تب ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ’میں دونوں کے ساتھ مل کر کوشش کروں گا کہ کشمیر کا کوئی حل نکل سکے۔‘ اسی دن امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ ’دونوں ممالک مختلف متنازع امور پر کسی نیوٹرل مقام پر بات چیت کا آغاز کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔‘
پاکستان کو ایران کی حمایت کرتے ہوئے اعتدال کیوں برقرار رکھنا ہوگا ؟
ٹرمپ کے دعوے کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا جس میں تین درجن سے زیادہ ممالک نے کردار ادا کیا۔ دوسری جانب انڈیا نے امریکی مداخلت کی مسلسل تردید کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے عوامی بیانات، جن میں کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی گئی، نے انڈیا کو مشکل سے دوچار کیا کیوں کہ دلی نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اس کے مغربی شراکت دار ممالک پاکستان اور انڈیا سے ایک جیسا سلوک نہ کریں۔ تاہم ٹرمپ کے دعوے نے ان کوششوں کی نفی کرتے ہوئے دونوں ممالک کو برابر دکھایا اور اسی وجہ سے انڈیا کے سفارتی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ مودی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر صدر ٹرمپ کی ثالثی قبول کرنے سے انکار کے بعد بھارت اور امریکہ کے تعلقات خرابی کی جانب گامزن ہونے کا امکان ہے۔