کیا عمران کا انجام بھی الطاف حسین والا ہوگا؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مزمل سہروری کہتے ہیں زمان پارک کو نیا نائن زیر و بننے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ بانی ایم کیو ایم کے لیے بھی یہ نعرہ لگایا جاتا تھا کہ قائد کا جو غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے۔ عمران خان کے لیے بھی یہ نعرہ لگوایا جا رہا ہے کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے، عمران خان کی طرف بڑھنے والا ہاتھ کاٹ دیں گے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان نے ایک پلاننگ کے تحت زمان پارک کو قلعہ بنایا، کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ زمان پارک کوبھی نیا نائن زیرو بنایا جا رہا تھا، اپنے کالم میں مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی گرفتاری کو بھی جان بوجھ کر ایشو بنا لیا ہے، یہ سیاسی رہنماؤں کا طرز عمل نہیں ہے۔ کیا زمان پارک کو ایک قلعہ نہیں بنا دیا گیا۔
جہاں کسی کی کوئی رسائی نہیں۔ بیرئیر لگا دیئے گئے ہیں جن سے آگے کوئی نہیں جا سکتا، باہر کارکن کھڑے کر دیئے گئے ہیں جبکہ لاہور کے عام شہریوں کے لیے وہاں سے گزرنا ممکن نہیں رہا ، آپ اندازہ لگائیں پولیس اور دیگر سرکاری اہلکاروں کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اسلام آباد پولیس کو بھی بیرئیر پر روک لیا گیا۔
نیب کے اہلکارجو نوٹس کی تعمیل کے لیے گئے، وہ بھی کئی گھنٹے باہر کھڑے رہے۔ انھیں بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسا نیٹ ورک بنا دیا گیا کہ کوئی عمران خان تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ باہر وہ تب نکلتے ہیں، جب لوگ ساتھ ہوں جب کہ ان کے گھر کے اندر کوئی آنہیں سکتا۔ کیا کسی جمہوری سیاسی جماعت اور اس کے رہنماؤںکا یہی کلچر ہوتا ہے۔
مزمل سہروردی بتاتے ہیں بانی ایم کیو ایم نے اپنے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو میں بھی ایسے ہی بیر ئیر لگا لیے گئے تھے۔وہاں بھی کارکنوں کی ڈیوٹیاں لگتی تھیں۔ وہاں بھی حکومت کی رسائی نہیں ہوا کرتی تھی، کوئی اندر نہیں جا سکتا تھا۔ زمان پارک میں بھی ایسا ہی منظر نظر آ رہا ہے۔ ریاست پاکستان نے پہلے نائن زیرو کے بہت خطرناک نتائج دیکھے ہیں، اب نیا نائن زیر و بننے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ کوئی سیاسی اور جمہوری رویہ نہیں ہے۔ کوئی بھی سیاستدان اپنے حامیوں کے سر پر خود کو قانون سے بالاتر نہیں بنا سکتا۔ ہم نے کراچی میں اس کی بہت تلخ مثالیں دیکھی ہیں۔اب ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اگر دوست یہ کہتے ہیں کہ عمران خان مقبول ہیں، لوگ ان سے پیار کرتے ہیں تو بانی ایم کیو ایم کی بھی یہی دلیل تھی لیکن مقبولیت ریاست کے اندر ریاست بنانے کا لائسنس نہیں دیتی بلکہ مقبولیت تو قانون اور ریاست کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ کوئی لیڈر اپنی مقبولیت کو نظام انصاف اور قانون کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت میں ریاست کی رٹ چیلنج ہوتی ہے۔مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا ایک کارکن جاں بحق ہوا ہے‘ یہ انتہائی قابل افسوس ہے ‘ سیاسی لیڈروں کو اپنے کارکنوں کی جان خطرے میں نہیں ڈالنی چاہیے،انھیں اپنے کارکنوں کے تحفظ کا پہلے سوچنا چاہئے۔
وہ خود تو محفوظ بنکر میں بیٹھے رہے اورکارکنوں کو ریاست سے لڑنے پر تیار کرتے ہیں کیونکہ سب کو پتہ تھا کہ دفعہ144 نافذ ہو چکی ہے۔ بہتر یہ تھا کہ پہلے حکومت کے ساتھ بات چیت کر کے ریلی کی اجازت لی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکلا ہے۔ورنہ جمہوری لیڈر تو خود آگے نظر آتے ہیں۔
بینظیر بھٹو اور دیگر پہلی لاٹھی بھی خود کھاتے رہے ہیں اور پہلی گرفتاری بھی اپنی دیتی تھیں لیکن ایم کیو ایم کا اسٹائل مختلف تھا۔ وہاں لیڈر محفوظ اور کارکنو ں کی جانیں خطرے میں ڈالی جاتی تھیں۔ عمران خان کو بھی اپنے کارکنوں کو ڈنڈے دیکر پولیس سے لڑنے نہیں بھیجنا چاہیے کیونکہ یہ جمہوریت نہیں۔