نواز شریف کی انتخابی سیاست کی راہ کیسے ہموار ہوئی؟
مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عدلیہ سے ریلیف کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے، نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے جس طرح حیلوں بہانوں سے سزائیں دلوائی گئی تھیں اب ان کو اسی طرح عدلیہ کی طرف سے واپس لیا جا رہا ہے۔ تازہ پیشرفت کے مطابق نواز شریف کو عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں بھی بری کر دیا ہے جس کے بعد نواز شریف کی انتخابی سیاست کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
نواز شریف کی وطن واپسی اور سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کیساتھ ہی جو سوال ہر ایک زبان پر تھا وہ ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزاؤں سے متعلق تھا۔ اس لیے کہ عدالت سے مجرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن نہیں تھا کہ میاں نوازشریف مستقبل کی سیاسی صورت گری میں کوئی اہم کردار ادا کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ خود نواز شریف کو بھی اس حقیقت کا ادراک تھا یہی وجہ تھی کہ ان دونوں مقدمات میں دی گئی سزاؤں کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا۔ جس کے بعد 29 نومبر کو ہوئی سماعت میں فاضل عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کو بری کر دیا، جب کہ فلیگ شپ کرپشن ریفرنس میں نیب نے اپنی اپیل واپس لے لی تھی تاہم اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کو گذشتہ سال دسمبر میں العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔اکتوبر کے آخر میں نواز شریف کی واپسی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کرتے ہوئے انہیں آٹھ ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے نواز شریف کی بریت کے فیصلے کو جہاں نون لیگ حق سچ اور انصاف کی فتح قرار دے رہی ہے وہیں دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ میرٹ پر دیا گیا، نیب کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھے،جس کی وجہ سے نواز شریف کا بری ہونا یقینی تھا۔
ماہر قانون جہانگیر جدون کا کہنا ہے نیب عدالت میں بے بس نظر آیا، جب پراسیکیوشن جواب دینے سے قاصر ہو تو عدالتیں کیا کرسکتی ہیں، جج ارشد ملک کی ویڈیو بھی سامنے آگئی تھی، بہت پہلے کہہ چکا تھا سپریم کورٹ کا پانامہ کا فیصلہ بالکل غلط تھا، سپریم کورٹ نے خود ہی نیب کو ریفرنس فائل کرنے کی ہدایت کر دی تھی۔ جس کے بعد نواز شریف کا بری ہونا یقینی تھا۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ یہ کیسز تو نیب نے بنائے نہیں تھے، کیسز سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنائے گئے تھے، جوڈیشل ریفارمز کی بہت ضرورت ہے، عدالتوں کو غلط طریقے سے حکومتوں کو نہیں گرانا چاہئے، آنے والے دنوں میں جوڈیشل ریفارمز ہونی چاہئے، اگر جوڈیشل ریفارمزنہ کئے تو ملک آئینی طور پر چلنے کے قابل نہیں رہے گا، اگر ایک سابق وزیراعظم کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا توعام آدمی کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ماہر قانون عرفان قادر نے مزید کہا کہ عدلیہ کے ججز نے سابق وزیراعظم کو نااہل کیا، سب سے پہلے نکالنے والے ججز کو قوم سے معافی مانگنی چاہئے، ایک وزیراعظم کو نااہل کرنے سے پوری کابینہ ختم ہوجاتی ہے، نیب قوانین کسی فرد واحد کو نہیں پارلیمان کو اتفاق رائے سے بنانے چاہئیں۔
جسٹس (ر) عباد لودھی نے کہا کہ آج کل جس طرح انصاف بانٹا جارہا ہے بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں، لگ رہا ہے طے شدہ معاملات ہیں، آمد سے پہلے ریلیف ملنا اور ایک ہی بینچ پر کیس لگنا سوالیہ نشان ہے، تاریخ دان ان دنوں کو انصاف کے حوالے سے سنہرے حروف میں نہیں لکھے گا۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت میں دائر کردہ ریفرنس کے مطابق العزیزیہ سٹیل ملز سعودی عرب میں 2001ء میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی جس کے بعد 2005ء میں ہل میٹل کمپنی قائم کی گئی۔نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ سٹیل ملز اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے، جب کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے اور بطور کمپنی عہدیدار تنخواہ بھی حاصل کی اور کمپنی کے نام سے اقامہ بھی ان کے پاس موجود تھا۔العزیزیہ ریفرنس میں عدالت نے انہیں 7 سال قید، 10 سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، تمام جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ تقریباً پونے 4 ارب روپے کا
جرمانہ بھی عائد کیا۔