نواز شریف کے الیکشن لڑنے کے لیے اگلے تین ہفتے اہم کیوں؟

سینئر سیاسی اور قانونی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن 2024 کے کاغذات نامزدگی سترہ دسمبر سے اکیس دسمبر تک جمع ہونے ہیں، نواز شریف کو اس سے پہلے کلین چٹ نہیں ملتی تو وہ الیکشن نہیں لڑسکتے، نواز شریف کاغذات نامزدگی کی تاریخ تک کلیئر نہیں ہوتے تو ن لیگ اور دوسرے اداروں کی انتخابی حکمت عملی ناکام ہوجائے گی، عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہوچکی ہے، توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل لیکن برقرار ہے، اس وجہ سے وہ اگلے الیکشن کیلئے نااہل ہیں . جیو ٹی وی کے پروگرام میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی پاناما میں نہیں اقامہ کیس میں ہوئی، پاناما کیس میں بنی جے آئی ٹی نے اس میں سے اقامہ نکال لیا تھا، سپریم کورٹ نے اقامہ ٹرائل پر بھیجنے کی بجائے وکیل سے سوال جواب کر کے وزیراعظم کو نااہل قرار دیدیا تھا، سپریم کورٹ نے جس طرح سرسری سماعت کے بعد نواز شریف کو نااہل قرار دیا عمران خان کے ساتھ ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کے دو ججوں نے بغیر ٹرائل کے نواز شریف کو نااہل قرار دیا، اس کے بعد جب ویڈیوز سامنے آئیں تو ان سے بچنے کیلئے جسٹس آصف سعید کھوسہ ججوں نے تفصیلی فیصلے دیئے کہ ویڈیوز کیسے بطور ثبوت پیش ہوسکیں گی، نواز شریف کے خلاف عدلیہ کو کھلم کھلا استعمال کیا گیا، سیاسی سسٹم کو بریک ڈاؤن اور عدلیہ کو ہائی جیک کیا گیا، اس وقت ہمارے ججز اسٹیبلشمنٹ کے اعانت کار بنے۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ نواز شریف اور عمران خان کا موازنہ ایسے ہی ہے کہ ن لیگ کو دو جوتے پڑے ہیں اور عمران خان کو تین جوتے پڑے ہیں۔ مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ نیب میں نئی قیادت آگئی ہے جو جمہوریت کو پسند کرتی ہے، وہ سیاستدانوں کو سزا نہیں دے گی ان کے ساتھ انصاف کرے گی، کاغذات نامزدگی سترہ دسمبر سے اکیس دسمبر تک جمع ہونے ہیں، نواز شریف کو اس سے پہلے کلین چٹ نہیں ملتی تو وہ الیکشن نہیں لڑسکتے، نواز شریف کاغذات نامزدگی تک کلیئر نہیں ہوتے تو ن لیگ اور دوسرے اداروں کی انتخابی حکمت عملی ناکام ہوجائے گی، نیب نے پہلے ہی کہہ دیا کہ وہ ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی سزا میں دلچسپی نہیں رکھتے اس صورتحال میں لگتا ہے اگلے دو ہفتے میں ان کیسوں میں فیصلے ہوسکتے ہیں۔ ، پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے دعوے کرنے والے وکلاء اسی صورت میں الیکشن لڑسکتے ہیں جب عمران خان جیل میں رہیں، عمران خان جیل سے باہر آگئے تو انہیں کون ٹکٹ دے گا، جس دن یہ قانون بن گیا کہ وکلاء وکالت کے ساتھ سیاست نہیں کرسکتے تو اس روز یہ اپنی وفاداری واضح کریں گے۔ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ عدلیہ نواز شریف کے معاملہ میں بھی استعمال ہوئی عمران خان کے معاملہ میں بھی ہورہی ہے، سپریم کورٹ میں جب تک عمر عطا بندیال چیف جسٹس تھے عمران خان کو سہولت کاری ملی، پاناما کیس میں شریف فیملی کی اپنی غلطیوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، نوا زشریف وزیراعظم تھے وہ نیب اور ایف آئی اے سے انکوائری کر کے معاملہ ختم کرواسکتے تھے، ن لیگ نے جب کہہ دیا تھا ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتماد ہوگا تو پھر قطری خط دینے کی کیا ضرورت تھی۔ حسنات ملک کا کہنا تھا کہ جس طرح نواز شریف کو الیکشن سے پہلے نااہل کیا گیا، عمران خان کیخلاف سائفر کیس میں بھی اسلام آباد ہائیکورٹ چار ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت دے چکی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ سے پی ٹی آئی کی کچھ شکایات جائز ہیں، سپریم کورٹ میں اب چیزیں آئین و قانون کے مطابق جارہی ہیں۔ حسنات ملک کا کہنا تھا کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہوچکی ہے، توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل لیکن برقرار ہے، اس وجہ سے وہ اگلے الیکشن کیلئے نااہل ہیں، ریاست جب کسی سیاستدان کو الیکشن لڑنے سے روکنا چاہے تو وہ پھر الیکشن نہیں لڑسکتا، ماضی میں نواز شریف کے بارے میں بھی فیصلہ ہوگیا تھا انہیں الیکشن لڑنے نہیں دیا گیا، آصف زرداری تاخیری حربے استعمال کرکے ریاست کے ساتھ معاملات سلجھالیتے ہیں اسی لئے کامیاب ہیں، ریاست اس وقت سمجھتی ہے عمران خان اس وقت سیاست کرنے کیلئے فٹ نہیں ہیں۔ سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ عمران خان اور نواز شریف کے مقدمات میں فرق یہ ہے کہ نواز شریف کو آرٹیکل 10 اے کا فائدہ نہیں دیا گیا اور عمران خان کو مل رہا ہے، نواز شریف کیخلاف مقدمہ سپریم کورٹ سے شروع ہو کر نیچے آیا یعنی پورا سسٹم الٹا چلایا گیا، عمران خان پر درکار طریقہ کار کے مطابق مقدمات چلائے جارہے ہیں، ایف آئی آر کٹی، وہ ماتحت عدالت میں گئے، ان کے پاس اپیل کا حق ہے، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کیخلاف ایک درخواست میں بہت سنگین الزامات لگائے گئے۔ عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ عمران خان کیخلاف ہر وہ مقدمہ جو عدالت میں چل رہا ہے وہ ان کیلئے خطرناک ہے، سینئر صحافی حسن ایوب خان نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ نواز شریف کو فیئر ٹرائل نہیں ملا، نواز شریف کے خلاف جو مقدمات بنے وہ انجینئرڈ ہیں، عمران خان کیخلاف مقدمات انجینئرڈ نہیں ہیں، اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کیخلاف مقدمات بنانے کیلئے کردار ضرور ادا کیا ہوگا، عمران خان کو سائفر لہرانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے نہیں کہا تھا، توشہ خانہ ایک کیس نہیں دو الگ الگ کیس ہیں، ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز کی بریت اس بنیاد پر ہوئی کہ نیب نواز شریف کیخلاف کچھ ثابت نہیں کرسکا تھا، العزیزیہ کیس میں جج ارشد ملک مرحوم کی ویڈیو موجود ہے، اس ویڈیو پر جج ارشد ملک کو نکال دیا گیا مگر العزیز یہ کیس میں فیصلہ برقرار ہے۔ حسن ایوب خان کا کہنا تھا کہ سائفر ڈی کلاسیفائی نہیں ہوا تو یہ بہت سنگین مقدمہ ہے عمران خان کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، یہاں کسی نے کچھ نہیں کیا چیئرمین تحریک انصاف نے خود سب کچھ کیا ہے، عمران خان کی کرنی ہے جو ان کے سامنے آرہی ہے، عمران خان کی آڈیو ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں سائفر پر ہمیں کھیلنا ہے، عمران خان کے اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے ان کیخلاف 164کا بیان دیدیا ہے، اسد عمر جنرل کے بیٹے ہیں ممکن ہے اس لئے بچ گئے ہیں، عمران خان کو سزا ہوتی ہے تو پھر شاہ محمود قریشی کی بچت نہیں ہے، شاہ محمود قریشی کیلئے بھی وہی میرٹ ہونا چاہئے جو عمران خان کیلئے ہے۔ حسن ایوب خان نے کہا کہ عمران خان نے بڑے سے بڑا جرم کیا ان کی کوئی پکڑ نہیں تھی، عمران خان نے سپریم کورٹ کے آرڈر کو ہوا میں اڑادیا، اس کے بعد پہلی دفعہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور عمران خان کا آمنا سامنا ہوا تو وہ کہتے ہیں گڈ

کیا انوار الحق کاکڑ کی جگہ محسن نقوی نگران وزیر اعظم ہوں گے؟

ٹو سی یو خان صاحب۔

Back to top button