فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی پر اعظم خان کو جُرمانہ

، PCBمشکل میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنے بلے پر فلسطین کا جھنڈا لگانے اور فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کرنے پروکٹ کیپر اوربلے بازاعظم خان کیخلاف جُرمانہ عائد کیے جانے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید ردِعمل کا سامنا ہے۔اعظم خان پر قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں میچ فیس کا 50 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ نجی ٹی ویسے گفتگو کرتے ہوئے پی سی بی نے وضاحت کی کہ اعظم خان پر غیر منظور شدہ لوگو استعمال کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ میچ ریفری کی جانب سے اعظم خان کو بلے پر فلسطینی پرچم کا اسٹیکر لگانے سے بھی منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اسے ہٹانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ان کے تمام بیٹس پر ایک ہی اسٹیکر لگا ہوا ہے۔کرکٹ بورڈ کے ضابطہ اخلاق کے تحت کھلاڑی کٹس یا آلات پر غیر منظور شدہ اسٹیکر نہیں لگا سکتے نہ ہی میچز کے دوران مذہبی یا سیاسی پیغامات کے اسٹیکر آویزاں کرسکتے ہیں۔میچ ریفری نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اعظم خان کے خلاف کارروائی کی۔ اعظم خان کو فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی پر سزا دینے کے عمل پر سینئر صحافی حامد میر نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر پی سی بی سے وضاحت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ ’کیا پی سی بی بتائے گی کہ پاکستان میں کرکٹ بیٹ پر فلسطین کا جھنڈا لگانا کب سے جرم ہو گیا ’بیٹ پر فلسطین کا جھنڈا لگانے پر اعظم خان کو جرمانہ کرنے والوں کو پی سی بی سے فارغ کرکے عبرت کی مثال بنانا چاہیے۔‘ اس کے علاوہ سینیٹر مشتاق احمد نے لکھا کہ ’کیا پی سی بی بتا سکتا ہے کہ کس قانوں کے تحت اعظم خان کو پریشرائز کیا گیا اور جرمانہ کیا گیا؟‘ ’فلسطین کے لئے حمایت ایک عالمی آواز اور انسانی ضمیر کی پکار ہے،جن آفیشلز نے یہ مجرمانہ حرکت کی ہے انہوں نے پاکستانی عوام کے جذبات شدید مجروح کیے ہیں، ان کے خلاف فوری ایکشن کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘
مشہور بھارتی دانشور اشوک سوین نے بھی اعظم خان پر میچ کا جرمانہ عائد کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں حیران ہوں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایسا کیوں کیا جب کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا، شاید انہیں جے شاہ کا خوف ہے۔‘اس کے علاوہ پاکستان ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف نے ایکس پر ایک ویڈیو شئیر کی جس میں وہ اسی معاملے پر صحافی نعمان نیاز سے گفتگو کررہے ہیں۔ اس دوران راشد لطیف نے اعظم خان کی جانب سے بیٹ پر فلسطین کا جھنڈا لگانے پر کہا کہ ’بڑی بات ہے، کل یہ جھنڈا ہی نہ لے کر آجائے۔‘ انہوں نے اعظم خان کو مشورہ دیا کہ ’انٹرنیشنل کرکٹ میں انہیں ایسا دوبارہ ایسا کرنے سے گریز کریں، ورنہ میرے خیال میں مشکل ہوجائے گی۔‘ یاد رہے کہ 2014 میں آئی سی سی نے انگلینڈ کے کرکٹر معین علی کو اپنی کلائی پر غزہ کی حمایت میں بینڈ پہننے پر متنبہ کیا تھا۔ معین علی نے ساؤتھ ہیمپٹن میں انگلینڈ کی بیٹنگ کے دوران کلائی پر بینڈ پہنا تھا جس پر ’ (غزہ کو بچاؤ)’ اور ’فری فلسطین لکھا ہوا تھا۔ انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے معین علی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ آئی سی سی کے قوانین کے مطابق کھلاڑیوں کو کھیل کے میدان میں سیاسی، مذہبی یا نسل پرستانہ پیغامات والی کسی بھی چیز پہننے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دوسری جانب رواں سال اکتوبر میں شروع ہونے والے کرکٹ ورلڈکپ 2023 کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے غزہ کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر کھل کر فلسطین کی حمایت میں ٹوئٹس کی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ 10 اکتوبر کو بھارت کے شہر حیدرآباد دکن میں سری لنکا کے خلاف میچ کے دوران 131 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے والے محمد رضوان نے بھی اپنی کامیابی غزہ کے نام کرتے ہوئے فلسطین سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔جس کے بعد بھارتی شائقین اور کرکٹ ماہرین نے فلسطین کے لیے کھلاڑیوں کی مسلسل حمایت پر سوالات اٹھائے تھے کہ آئی سی سی سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔بعدازاں آئی سی سی کے ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ کھیل کے میدان اور آئی سی سی کے دائرہ
نواز شریف کے الیکشن لڑنے کے لیے اگلے تین ہفتے اہم کیوں؟
اختیار سے باہر ہے‘۔