عدالتی فیصلے نے عمران اور ان کی سیاست بھی دفن کر دی

عمران خان کے عتاب کا شکار ہو کر جیل بھگتنے والے آن لائن نیوز ایجنسی کے مالک محسن بیگ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے نہ صرف نظریہ ضرورت دفن کر دیا ہے بلکہ عمران خان اور ان کی سیاست کو بھی دفن کر دیا ہے۔ روزنامہ جنگ کے لئے لکھی گئی ایک تحریر میں محسن بیگ کہتے ہیں کہ عمران آج بھی دعوی کرتے ہیں کہ وہ اپنا گھر اپنے جیب سے چلاتے ہیں مگر یہ نہیں بتا پاتے کہ ان کا خرچہ آتا کہاں سے ہے؟ محسن بیگ نے سوال کیا کہ وزیر اعظم کی تنخواہ تو 2 لاکھ روپے ہے اور انکے بنی گالہ محل اور انکے درجنوں ملازمین کا خرچ اس تنخواہ سے کئی گنا ذیادہ ہے، لہذا سوال یہ ہے کہ انکے گھر کا خرچہ کون پورا کرتا ہے؟
محسن بیگ نے کہا کہ میڈیا میں جو بھی انکی پالیسیوں پر تنقید کرتا اسے سبق سکھا دیا جاتا یے۔ جب مختلف ٹاک شوز میں ہم نے عمران خان کو اصلاح احوال کا مشورہ دیا تو ان کو یہ بھی برا لگا اور دشمنی میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ ایک جھوٹے کیس میں بغیر وارنٹ میرے گھر کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا اور مجھے گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اسکے بعد مجھے کمزور کرنے کے لئے میرے بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا اور میرے ادارے پر چھاپے مارے گئے۔ انہوں نے کہا کہ تین سالوں کے دوران مختلف وزارتوں میں ہونے والے کھربوں روپے کے گھپلے کی فائلیں آڈیٹر جنرل کی الماریوں میں پڑی کپتان کی گڈ گورننس کا منہ چڑا رہی ہیں۔ لیکن میں ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے اس بہروپیے کو بروقت پہچان لیا اور پھر اس سے بڑھ کر اﷲ کا کرم یہ ہے کہ اس کے بعد میں خاموش نہیں رہا بلکہ گزشتہ اڑھائی برس سے میں نے اپنے ذاتی مشاہدے کو عوام کے سامنے رکھا اور عوام کو جگانے کی اپنے تئیں بھرپور کوشش کی۔ محسن بیگ کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے مجھے 16 فروری 2022 ء کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے بڑھ کر ریاست مدینہ کے نام پر اور کیا دھوکہ اور فراڈ ہو سکتا ہے کہ میرے خلاف 24 گھنٹے میں پانچ بے بنیاد مقدمات درج کر لئے گئے ۔میرے گھر پر ایف آئی اے کا غیر قانونی چھاپہ اور پھر تھانے میں پولیس کی نگرانی میں ایف آئی اے کے سرکاری غنڈوں کا تشدد عمران خان کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کر گیا۔
محسن بیگ نے کہا کہ حکومت پر تنقید کرنا صحافیوں کا فرض ہوتا ہے لیکن عمران حکومت ایسی تھی جس نے اپنے نقادوں پر ذاتی حملے کرنے کے لئے سوشل میڈیا ٹرولز کا ایک ریوڑ رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کے لئے جو امریکہ مخالف بیانیہ اپنایا اور خط کا جو ڈھونگ رچایا وہ اپنی موت آپ مرنے والا ہے کیونکہ وہ خط بھی بالکل ویسے ہی جھوٹا ہے جس طرح عمران خان جھوٹا ہے۔
محسن بیگ نے کہا کہ عمران خان کی ذات اپنے ’’محسنوں ‘‘ کے لئے کسی ڈریکولا سے کم نہیں ہے کیونکہ پارٹی کو فنڈ دینے اور دھرنے میں 126 دن خدمات سرانجام دینے والے عبدالعلیم خان کو عمران نے مستقل اپنی ذات کے لئے استعمال کیا اور پھر جب وزارت اعلٰی دینے کی بات آئی تو نیب کے ڈریکونین قوانین کا سہارا لے کر اسی عبدالعلیم خان کو نہ صرف نیب زدہ کر دیا بلکہ جیل ہی بھجوا دیا۔
عبدالعلیم خان اگرچہ سراپا احتجاج بھی ہیں اور سچائی بھی بیان کر رہے ہیں مگر یہ سچائی اگر چھ ماہ پہلے عوام تک پہنچ جاتی تو اس کا رنگ ہی اور ہوتا۔ بیگ نے کہانکہ اسی طرح عمران نے جہانگیر ترین کو ایف آئی اے کے ڈریکولا نما نوکیلے دانتوں کے سپرد کیا حالانکہ ترین وہ تحمل مزاج شخص ہے جس نے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے لئے اپنا جہاز ایسے دوڑایا جیسے کوئی اپنے گھر کا راشن لانے کے لئے موٹر سائیکل دوڑاتا ہے، مگر افسوس صد افسوس جب اقتدار کا پھل پکا اور اس کے کھانے کا وقت آیا تو عمران کے اشارہ ابرو پر ایف آئی اے جہانگیر ترین کے پیچھے پڑ گئی۔ لہذا مؤرخ جب بھی عمران دور کا ذکر کرے گا تو ضرور لکھے گا کہ ملک میں آئین تو موجود تھا لیکن آئین شکن اس پر بھاری پڑ رہے تھے جنکا خاتمہ بالاخر سپریم کورٹ کے ہاتھوں ہوا۔