پٹرول اور ڈیزل مہنگا کرنے پر نون لیگ کے حمایتی حکومت کیخلاف

وفاقی حکومت کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ اپنے ہی حمایتیوں کی جانب سے سخت تنقید کی زد میں آ گئی ہے۔
وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس جو کبھی شہباز شریف حکومت کی مدح سرائی کرتے دکھائی دیتے تھے اب انہی سے حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ ویسی ہی صورت حال ہے جس کا سامنا ماضی میں تحریک انصاف کی حکومت کو عمران خان کی وزارت عظمی کے دور میں کرنا پڑا تھا۔ یعنی 2018 میں عمران خان کے اقتدار میں آنے کے دو سال بعد 2020 میں سوشل میڈیا پر ان کے اپنے حامی مہنگائی اور پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر سیخ پا ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کچھ ویسی صورت حال کا سامنا اب مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
مسلم لیگ کے ایک متحرک سوشل میڈیا کارکن آر اے شہزاد نے ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اپنے اکاؤنٹ سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کی ایک تازہ پوسٹ کے مطابق ’موجودہ حکومت کو کل ملا کر اقتدار میں ساڑھے تین سال ہو چکے لیکن عام آدمی کو کوئی ریلیف ملنے کی بجائے مسلسل تکلیف ہی مل رہی ہے۔ عام آدمی کے لیے مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے گھر چلانا ناممکن ہو گیا ہے بجلی، گیس اور پانی کے بل مہنگے تر ہو گئے ہیں۔
اب پٹرول اور ڈیزل کو بھی 8 سے 10 روپے تک مہنگا کر دیا گیا جس کا اثر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر پڑے گا اور غریب آدمی کی کمر مکمل طور پر ٹوٹ جائے گی۔ ناقدین کہتے ہیں کہ دوسری جانب حکمران اشرافیہ، وزرا اور اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں سینکڑوں گنا اضافہ کر دیا گیا ہے ایسے میں ایک عام آدمی حکومت کی حمایت کیسے جاری رکھ سکتا ہے ؟‘
یاد رہے مسلم لیگ کے کٹر کارکن آر اے شہزاد ڈنمارک میں رہتے ہیں اور انکا شمار ن لیگ کے بڑے سوشل میڈیا انفلوئنسرز میں ہوتا ہے۔ اب وہ حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر الٹا حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں ان کے ٹویٹس کے نیچے لیگی کارکن بھی حکومت مخالف منفی تبصرے کرتے ہوئے سوال اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آر اے شہزاد نے اپنے تازہ ٹویٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف کو ٹیگ کر کے کہا کہ وہ بجلی کی قیمتیں کم کریں کیونکہ بھاری بھرکم بلز نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
ایاز صادق نے تنخواہ کے معاملے پر خود کو الگ کرلیا، فیصلہ وزیر اعظم پر چھوڑ دیا
حکومتی ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز اور وزیر توانائی اویس لغاری سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اس ایشو پر فوری توجہ دینا ہو گی۔ معروف وکیل اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ میاں داؤد ماضی میں موجودہ حکومت کے حامی رہے ہیں لیکن اب ان کے خیالات بھی بدل کر حکومت مخالف ہوتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے بعد حکومت کا رگڑا نکالتے دکھائی دیتے ہیں۔ دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں سپیکر ،چئیرمین سینیٹ اور اراکین اسمبلی کی مراعات میں اضافے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے ماضی کے دعووں کے برعکس حکومت بلا وجہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے سے پرہیز کرے ورنہ اسے عوامی نفرت بھگتنا ہو گی۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب کسی سیاسی جماعت کے وفادار کارکن اپنی ہی حکومت پر تنقید شروع کر دیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت عوامی حمایت کھونا شروع ہو گئی ہے۔ دوسری جانب حکومت خود کو دھوکہ دیتے ہوئے سب اچھا ہے کہ تسبیح کیے جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت عمران خان کی چھٹی کے بعد 2022 سے شروع ہوئی تھی۔ لیکن چار سال گزر جانے کے بعد بھی حالات بہتر نہیں ہوئے۔ چنانچہ اب لوگ سوال کر رہے ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت انہیں ریلیف فراہم کرنے کی بجائے مسلسل تکلیف پہنچانے کا باعث بن رہی ہے لہذا اس کی مزید حمایت جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔