نون لیگ خود پر لگا ڈیل کا داغ کیسے دھوئے گی؟

سینئر صحافی عادل شاہ زیب کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کا نتیجہ ابھی سے نکال کر نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنا دیا ہے۔خود ن لیگ کا انتخابی نعرہ یہی ہے کہ نواز شریف اگلے وزیراعظم ہیں لیکن پیپلز پارٹی تحریک انصاف اور جے یو آئی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اگلے وزیراعظم نوازشریف ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ باقی جماعتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ نواز شریف کو وہی قوتیں وزیراعظم بنوا رہی ہیں جنہوں نے ان کو اقتدار سے بے دخل کر عمران خان کو وزیراعظم بنوایا اور ان کے نزدیک 2018 اور 2024 کے انتخابات میں واحد فرق یہ ہو گا کہ 2018 میں کس طریقے سے عمران خان کو وزیراعظم بنوایا گیا، 2024 میں طریقہ وہی، صرف وزیراعظم نوازشریف کو بنوایا جائے گا۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عادل شاہ زیب کا مزید کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک مضبوط دھڑے کی نون لیگ میں شمولیت سے یہ تاثر مزید ابھارا گیا کہ ن لیگ اب کنگز پارٹی ہے اور اشارے پر چلنے والے زیادہ تر سیاستدان اسی پارٹی کا رخ کر رہے ہیں۔اگر ان مفروضوں کو درست مان لیا جائے کہ واقعی مقتدرہ اس دفعہ نواز شریف کو ہی وزیراعظم بنوانا چاہتی ہے تو اس کی مدد کے ابھی تک اس طرح واضح آثار نظر نہیں آئے جس طرح 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں نظر آئے۔ عادل شاہ زیب کے مطابق اس میں کوئی دو رائے نہیں تخت اسلام آباد پر وہی جماعت براجمان ہو گی جو پنجاب کا معرکہ سر کرے گی۔جس طرح جہانگیر ترین جہاز بھر بھر کر پی ٹی آئی میں شامل کروا رہے تھے، پنجاب میں وہ جہاز ابھی تک نون لیگ کو میسر نہیں آیا۔ فی الحال ہیلی کاپٹر کی اڑان ہو رہی ہے جس میں پی ٹی آئی کی سیاست سے توبہ تائب کرنے والے سیاست دان سیدھا جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی سے لانچ ہو رہے ہیں۔اگر کوئی غیبی مدد ہو رہی ہے تو اس کا فائدہ اسی جہانگیر ترین کو پہنچ رہا ہے جس نے پروجیکٹ عمران خان کی تکمیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عادل شاہ زیب کے بقول اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ نون لیگ 2018 کے مقابلے میں اپنے مضبوط قلعے پنجاب میں اتنی مقبول نہیں جتنی اس وقت مضبوط تھی۔ پنجاب میں شمولیتیں بھی دھڑا دھڑا استحکام پارٹی میں ہو رہی ہیں۔ پنجاب کا یہ حال ہے تو مقتدرہ اگر چاہے بھی تو نواز شریف کو کیسے وزیراعظم بنوائے گی؟ عادل شاہ زیب کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ اگر کسی سیاسی جماعت کے مفادات اور مستقبل داؤ پر لگے ہوئے ہیں تو وہ نون لیگ ہے۔کنگز پارٹی کا تاثر لے کر انتخابات میں اترنا پنجاب کی سیاست میں ترپ کا پتہ سمجھا جاتا ہے تاہم ایسے میں بیانیے کی جنگ ہار کر انتخابات بھی ہار جانا نون لیگ کے لیے ایسا جھٹکا ہو گا جس سے سنبھلنا آسان نہیں ہو گا۔ لہٰذا ہر قیمت پر جیتنا اور نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنوانا ہی نون لیگ کا اصل قلیل مدتی مقصد ہے جس کے لیے ان کی تیاری فی الحال نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں؛ اول تو یہ کہ نواز شریف کے قانونی معاملات کا انتظار کیا جائے جن کا فیصلہ جلد سامنے آ جائے گا اور دوسری یہ کہ نون لیگ ضرورت سے زیادہ پراعتماد ہو چکی ہے۔ پنجاب کے زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ نون لیگ کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔یہ بات درست ہے کہ نواز شریف پنجاب میں رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے ماہر ہیں لیکن آج حالات بہت بدل چکے ہیں، ن لیگ کی لیڈر شپ مانے یا نہ مانے لیکن آج پارٹی کو اپنے بنیادی ووٹر اور سپورٹر کو بھی دوبارہ اپنی طرف مائل کرنے کا سنگ میل عبور کرنا ہو گا، ساتھ میں اس پراپیگنڈے کا بھی جواب دینا ہوگا کہ نواز شریف فوج کی مدد سے اقتدار میں آ رہے ہیں اور ان کی پارٹی کو ’اپر ہینڈ‘ دینے کے لیے باقی سیاسی جماعتوں کا راستہ روکا جا رہا ہے۔اس بڑے اعتراض کا جواب نون لیگ کو خود ہی اور ہر حال میں دینا ہو گا کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کو کیا چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے؟انتخابات کی تیاری سے لے کر، فوج کی مدد سے اقتدار میں آنے تک، کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے ابھی نون لیگ نے بڑے بڑے امتحانات اور چیلینجز سے گزرنا ہے۔ عادل شاہ زیب کے مطابق پاکستانی سیاست ممکنات کا ایسا کھیل ہے جس میں ایک شام وزارت عظمیٰ کے آنگن میں چہل قدمی کرنے والے اگلی شام چھ بائے چار کے سیل میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں کچھ بھی مستقل نہیں اور کچھ غیر متوقع نہیں اور کون نہیں جانتا کہ زرداری صاحب پاکستان کے سیاسی میدان کے ایسے کھلاڑی ہیں جو ہاری ہوئی بازی جیت سکتے ہیں۔اور اگر جیت سے کوسوں دور بھی ہوں تو میچ برابر کروانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں
پاکستان سپر لیگ کو ایک مرتبہ پھر جلا وطن کیوں کیا جا رہا ہے؟
۔