پنجاب: گاڑی دھونے پر پابندی کے بعد کار واش سینٹرز بنانے پر بھی پابندی

حکومت پنجاب نے گھروں میں گاڑیاں دھونے پر پابندی عائد کرنے کے بعد اب صوبہ بھر میں پٹرول پمپس پر نئے کار واش سینٹرز بنانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے جس کا بنیادی مقصد صوبے کو پانی کے بحران سے بچانا ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب کے محکمہ ماحولیات نے گھروں میں گاڑیاں دھونے پر پابندی عائد کرتے ہوئے زیر زمین پانی سے گاڑی دھونے پر 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ دراصل حکومت نے یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم کے 10 فروری 2025 کے حکمنامے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جاری کیا تھا۔
اب ایک اور قدم اگے بڑھتے ہوئے حکومت پنجاب کے محکمہ ماحولیات نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے صوبہ بھر میں نئے کار واش سینٹرز بنانے پر تاحکم ثانی پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کا اطلاق فوری طور پر کر دیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ پہلے سے موجود کام کرنے والے تمام کار واش سٹیشنںز کی کڑی نگرانی کے لیے تمام بڑے شہروں اور اضلاع کی انتظامیہ کو تحریری حکم نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔ کار واش سٹیشنز بنانے پر پابندی کے لیے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایک کار کو دھونے کے لئے چار سو لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ لہازا اس وقت صوبے کو پانی کی قلت کا سامنا ہونے کے باعث پانی کے غیر ضروری استعمال کو کم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
ڈی جی محکمہ تحفظ ماحولیات ڈاکٹر عمران حامد کا کہنا ہے کہ ’یہ ابھی شروعات ہے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پانی کا غیر ضروری استعمال مکمل طور روکا جائے۔ ہم تمام بڑی فیکٹریوں کے ساتھ بھی مذاکرات کر رہے ہیں کہ وہ اپنے پانی کو ری سائیکل کر کے دوبارہ استعمال میں لائیں۔ انکا کہنا تھا کہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ تو ہر فیکٹری میں لگا ہوا ہے لیکن اب جلد ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ جائیں گے کہ اس پانی میں سے بھی جتنا مکمن ہو سکے دوبارہ استعمال کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ ماحولیات نے یہ فیصلے حال ہی میں محکمہ موسمیات اور ارسا کی جانب سے خشک سالی کی وارننگز کے بعد کیا ہے تاکہ آئندہ مہینوں میں پیدا ہونے والی صورت حال کے لیے ذہنی طور پر تیار رہا جا سکے۔
یاد رہے کہ گذشتہ مہینے پاکستان کے محکمہ موسمیات اور دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے نگران ادارے ارسا نے ملک کے تین صوبوں میں خشک سالی کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ ان تین صوبوں میں پنجاب بلوچستان اور سندھ شامل ہیں۔
محکمہ موسمیات کے جاری خشک سالی الرٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کے جنوبی حصوں میں بارش نہ ہونے کا دورانیہ دو سو دنوں سے بھی زیادہ رہا جس کی وجہ سے خشک سال کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ ملک میں گذشتہ سال کے آخری چار مہینوں اور اس سال کے پہلے دو مہینوں میں بارشیں چالیس فیصد کم ہوئی ہیں جس کی وجہ سے دریاؤں میں بھی پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہوئی ہے۔ ایسی رپورٹس بھی آ رہی ہیں کہ خشک سالی کی وجہ سے سندھ ڈیلٹا میں ڈالفن مچھلیوں کو بچانا بھی مشکل ہو جائے گا کیونکہ درجہ حرارت کے بڑھنے سے پانی کی سطح روزانہ کی بنیاد پر کم ہو رہی ہے۔ پنجاب کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے صوبے کے تمام اضلاع کو مکمنہ خشک سالی کے لیے تیار رہنے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ پانی کی کمی سے فصلیں خاص طور پر چاول کی کاشت شدید طور پر متاثر ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل تحفظ ماحولیات پنجاب کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر صوبے میں قائم تمام غیرقانونی سروس سٹیشنز فوری طور پر بند کرنے کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اسکے علاوہ پٹرول پمپس پر پانی ری سائیکل کرنے کے سسٹم کے بغیر چلنے والے سروس سٹیشنز پر ایک لاکھ جرمانہ عائد ہو گا۔ محکمہ محولیات کا کہنا ہے کہ پنجاب میں گذشتہ 5 ماہ کے دوران 42 فی صد کم بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی مزید نیچے جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے لہذا پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تاہم پیٹرول پمپس پر قائم کردہ سروس سٹیشنز چلانے والوں کا کہنا ہے زیر زمین پانی کے استعمال اور ری سائیکل سسٹم لگانے پر کروڑوں روپے کی لاگت آتی ہے۔ حکومت نے کئی سال سے ری سائیکلنگ سسٹم لگانے کا حکم دے رکھا ہے۔ لیکن اس حکم پر عمل کرنا اس کیے ممکن نہیں کہ اس کی لاگت بہلتا زیادہ ہے لہذااب بھی اس حکم پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ اسکا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پٹرول پمپس پر سروس سٹیشنز بند ہو جائیں گے۔ سروس سٹیشن چلانے والوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ اس کے فیصلے پر عمل درامد ہو تو اسے چاہیے کہ وہ سروس سٹیشنز پر ری سائیکلنگ پلانٹ لگانے کے لیے آسان قرضے فراہم کرے۔ اسکے علاوہ حکومت خود بھی ری سائیکل شدہ پانی استعمال کے لیے سروس سٹیشنوں کو فراہم کر سکتی ہے۔
تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ ری سائیکل شدہ پانی استعمال نہ کرنے والے سروس سٹیشنز کے خلاف تو حکومت کارروائی کر سکتی ہے، لیکن گھروں میں گاڑیاں دھونے سے روکنے کے حکم پر کیسے عمل کرائے گی خصوصا جب لوگ واسا کو پانی کا بل ادا کرتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ چھوٹے گھروں میں گاڑیاں دھونے کا تو پتہ چل سکتا ہے لیکن بڑے گھروں میں جہاں اندر ہی پانی گٹروں میں جاتا ہے وہاں کیسے معلوم ہوگا؟‘ ناقدین کا کہنا ہے کہ گھر گھر جا کر چیک کرنا اور جرمانے کرنا مشکل ہے لہذا کیا اس کے لیے بھی ایک الگ محکمہ قائم ہو گا؟ ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ اگر معاملہ صرف زیر زمین پانی کے ضیاع کا ہے تو جن گھروں میں فرش یا برتن دھونے، کپڑے دھونے پر پانی زیادہ استعمال ہوتا ہے ان کا کیا کریں گے؟ انکے مطابق حکومت کو متبادل انتظام کیے بغیر لوگوں سے روزمرہ زندگی میں زیر زمین پانی کے استعمال پر پابندی لگانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔