پنجاب اسمبلی:دیواروں پر خاردار تاریں، مرکزی دروازے بند
پنجاب اسمبلی کی دیواروں پر خاردار تاریں لگا کر مرکزی دروازے بند کر دیئے گئے، جبکہ باہر پولیس کی بھاری نفری کو لاٹھیوں اور شیلڈز کے ساتھ تعینات کردیا گیا۔اس کے علاوہریسکیو 1122 کی گاڑیاں اور واٹر کینن بھی پنجاب اسمبلی کی عمارت کے باہر کھڑے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے آج ہونیوالے اجلاس کے حوالے سے ابھی تک کنفیوژن برقرار ہے۔صوبائی اسمبلی سیل کرنے کے اقدامات ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے آج ساڑھے 7 بجے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس بلانے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر کیے گئے ہیں۔
ادھر اسمبلی ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے اسمبلی اجلاس کی تردید کردی تھی۔
پنجاب اسمبلی کی عمارت سیل کرنے پرپیپلزپارٹی کےچیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ‘قبضہ کرنے میں 30 سیکنڈ لگ سکتے ہیں تو اس کو غیر مؤثر کرنے کے لیے بھی 30 سیکنڈز لگنے چاہیئں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھاانصاف میں تاخیر انصاف فراہمی سے انکار ہے،گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والی آئین کی منسوخی کے بعد آج پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی سے باہر روک دیا گیا ہے جب وزیراعلیٰ کے لیے ووٹنگ کا دن ہے،عوامی ایوان کے اطراف خار دار تار بچھائی گئی ہے۔
ن لیگ کی نائب صدرمریم نواز نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ وہ حمزہ شہباز کی حمایت کرنے کے لیے 7 بجے پنجاب اسمبلی پہنچیں گی، جو وزیراعلیٰ کے امیدوار ہیں،حمزہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے، جنہیں واضح اکثریت حاصل ہے، میں 7 بجے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جاؤں گی، ان شااللہ۔
قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے ڈپٹی اسپیکر کےخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی تھی،ڈپٹی اسپیکر کو نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے اجلاس سے روکنے کے لیے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے ان کے اختیارات بھی واپس لے لیا تھااسپیکر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘پچھلے حکم کو روکنے اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر کے رول 15 کو 235 کے ساتھ ملا کر، میں پرویز الہیٰ، اسپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب کی حیثیت سے ڈپٹی اسپیکر کو رول 25 کے تحت حاصل اختیارات واپس لیتا ہوں، جس کا نفاذ فوری ہوگا۔
دریں اثنا مسلم لیگ ن کی جانب سے اسپیکر پرویز الہٰی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب عمل میں لائے بغیر اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل تک مؤخر کردیا تھاڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کی جانب سے جاری احکامات میں کہا گیا تھا کہ صوبائی اسمبلی پنجاب کے رولز اینڈ پروسیجر 1997 کے رول 25 بی کے تحت حکم دیا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے 40 ویں سیشن کا اگلا اجلاس 6 اپریل 2022 کے بجائے ہفتہ 16 اپریل 2022 کو اسمبلی چیمبرز میں ہوگا۔
یاد رہے کہ 3اپریل کو بھی ہنگامی آرائی کے بعد اجلاس وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کے بغیر ملتوی کردیا گیا تھاڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کے زیر صدارت تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزادر، وزیر اعلیٰ کے امیدواروں چوہدری پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز سمیت ارکان نے شرکت کی تھی۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا ون پوائنٹ ایجنڈا وزیراعلیٰ کا انتخاب تھا تاہم گھنٹی بجنے کے بعد اجلاس شروع ہونے پر ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی اور اسپیکر کی جانب سے ہنگامہ آرائی پر اجلاس 6 اپریل تک ملتوی کردیا گیا تھا۔اس سے ایک روز قبل بھی وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے منعقد ہونے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کے سبب ملتوی کردیا گیا تھا۔
پنجاب اسمبلی میں میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے تحریک عدم اعتماد پر مستعفی ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے لیے نئے سربراہ انتخاب کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار کے طور پر مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ پی ایم ایل این نے حمزہ شہباز کو نامزد کیا ہے،حمزہ شہباز کو پی ٹی آئی کے منحرف اراکین، جہانگیر ترین اور علیم خان گروپس کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی دوڑ میں ان کے آگے بڑھنے کی توقع ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے امیدوار کو 371 ایوان میں موجود اراکین میں سے 186 اراکین کے ووٹ درکار ہیں،پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 183، مسلم لیگ (ق) کے 10، مسلم لیگ (ن) کے 165، پیپلز پارٹی کے 7 اراکین موجود ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلی میں5 آزاد اراکین ہیں اور ایک تعلق راہِ حق پارٹی سے ہے،وزیر اعلیٰ کی نشست پر ہار یا جیت کا فیصلہ جہانگیر ترین کی حمایت پر منحصر ہے، جن کے کہنا ہے کہ ان کے پاس کم ازا کم 16 اراکین صوبائی کے اسمبلی کے ووٹ ہیں۔