40 لاکھ پاکستانی شہریوں کی خفیہ فون ٹیپنگ کا انکشاف

 

 

 

انسانی حقوق کےلیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس دعوے کے بعد وفاقی حکومت شدید تنقید کی زد میں آ گئی ہے کہ پاکستان میں اس وقت 40 لاکھ سے زائد شہریوں کی فون ٹیپنگ نظام کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔ تنظیم نے دعوی کیا ہے کہ انٹرنیٹ تک رسائی محدود کرنے کے لیے پاکستانی حکام نے ایک فائر وال بھی نصب کی ہے۔

 

دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے تقاضوں کے تحت ہر ملک میں سرویلنس اور نگرانی کی جاتی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔

ادھر ایمنٹسی نے اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’پاکستان نگرانی اور سنسرشپ کا یہ نظام چینی، یورپی اور شمالی امریکی کمپنیوں کی مدد سے چلا رہا ہے، جس کے ذریعے سوشل میڈیا سے تنقیدی مواد اور اختلافی آوازوں کو سینسر کیا جا سکتا ہے جو ریاستی نگرانی کی ایک بڑی مثال ہے۔‘

 

اس رپورٹ پر اب تک حکومت پاکستان کی جانب سے ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ایمنٹسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ شائع کرنے سے پہلے اس نے حکومت پاکستان سے مسلسل اس کا موقف لینے کی کوشش کی لیکن اسے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم فائر وال لگائے جانے کی بالواسطہ تصدیق پچھلے سال اگست میں ہو گئی تھی جب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے کہا تھا کہ ‘وفاقی حکومت نے فائر وال لگانے کا حکم دے دیا ہے اور پی ٹی اے اس پر عمل کر رہا ہے۔

 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’لا فل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم lawful intercept management system کے ذریعے کم از کم 40 لاکھ موبائل فونز ایک ساتھ ٹیپ کیے جا سکتے ہیں، جبکہ انٹرنیٹ کے مواد کو فلٹر اور سنسر کرنے کے لیے استعمال ہونے والا ویب منیجمنٹ سسٹم 2.0 فائروال ایک مرتبہ میں 20 لاکھ انٹرنیٹ سیشنز کو بلاک کر سکتا ہے۔‘ یاد رہے کہ پاکستان میں چینی فائروال کے استعمال کی خبریں گذشتہ برس بھی میڈیا میں گردش میں رہیں تھیں، جب انٹرنیٹ کی رفتار میں شدید کمی کی شکایات سامنے آئی تھیں۔ اس معاملے پر عدالتی سماعت کے دوران یہ معلومات بھی سامنے آئیں کہ پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ نامی ایک مخصوص نظام کے تحت خفیہ اداروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کرتی ہیں۔

 

یورپی ٹیلی کمیونیکیشن سٹینڈرڈز انسٹٹیوٹ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ’لا فُل انٹرسیپشن‘ lawful interception کی اصطلاح کا مطلب نجی کمیونیکیشن جیسے کہ ٹیلی فون کالز یا ای میل میسجر تک سرکار یا حکومت کو رسائی دینا ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسا نظام ہے جسے پاکستانی صارفین کی فون کالز، پیغامات اور دیگر ڈیٹا تک رسائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق ’تحقیقات سے پتا چلتا ہے ک پاکستانی حکام نے جدید ترین نگرانی اور سنسرشپ ٹولز کی خفیہ عالمی سپلائی چین کے ذریعے غیر ملکی کمپنیوں سے ٹیکنالوجی حاصل کی ہے، خاص طور پر نیا فائر وال ’ویب مانیٹرنگ سسٹم‘ جسے ڈبلیو ایم ایس 2.0 کا نام دیا گیا۔‘

 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل ایگنس کیلامارڈ نے بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کا ویب مانیٹرنگ سسٹم اور قانونی انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم شہریوں کی زندگیوں پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔‘ ان کے مطابق ’پاکستان میں ٹیکسٹ، ای میلز، کالز اور انٹرنیٹ تک رسائی سب کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ لیکن لوگوں کو اس مسلسل نگرانی کا کوئی علم نہیں ہے۔ یہ عمل انتہائی خطرناک ہے کیونکہ یہ سایے کی طرح کام کرتا ہے اور اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کو شدید طور پر محدود کر دیتا ہے۔‘

 

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر نے بی بی سی کی ثنا آصف کو بتایا کہ اس رپورٹ میں نگرانی کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے لیے فرضی نام استعمال ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ’ان ناموں سے ٹیکنالوجی کے بارے میں درست معلومات حاصل نہیں ہوتی ہیں۔‘

 

ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ڈیجٹیل رائٹس فاونڈیشن‘ کی ایگزيکٹِو ڈائریکٹر نگہت داد نے بتایا کہ ایمنسٹی کی رپورٹ سے ثابت ہوبگیا کہ اس حوالے سے پائے جانے والے خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہمارے نظام میں شفافیت اور اس عمل کی نگرانی اور احتساب کے عمل میں کتنی کمی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر سیاسی کارکنان کو احتجاج میں شرکت کرنے پر گرفتار تک کیا گیا۔‘ نگہت داد کے مطابق ’لمس نامی ٹیکنالوجی زیادہ پریشان کن ہے جسے نام تو لافل کا دیا گیا مگر ہے یہ سب غیرقانونی ہے۔‘ ان کے مطابق اس رپورٹ سے ’عوام میں اپنے حقوق سے متعلق بھی لاعلمی آگاہی کے نہ ہونے کے بارے میں پتا چلتا ہے۔‘

 

ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کی شریک بانی فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ ‘ایمنسٹی کی رپورٹ گذشتہ برس کی قیاس آرائیوں کی تصدیق کرتی ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرنے کے لیے کوئی وائر وال نصب کی گئی ہے۔  فریحہ کے مطابق یہ اب ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بیرونی ممالک سے خرید کر یہاں نصب کی گئی ہے۔

ان کے مطابق ’اس ٹیکنالوجی کی خریدوفروخت پر یہ بحث بھی ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی پر کوئی پابندی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے انسانی حقوق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔‘ ان کی رائے میں ’جس طرح یہ ٹیکنالوجی حکومتوں کو فروخت کی جاتی ہے اور جس طرح استعمال کی جاتی ہے اس سے پرائیویسی اور آزادی اظہار رائے متاثر ہوتی ہے کیونکہ اس سے آپ کو سنا جا رہا ہے اور اس سے آپ کے ‘ذرائع’ کی شناخت محفوظ نہیں رہ سکتی۔‘

جنگ اخبار نے اداریہ بیکار اور پرانا قرار دے کر ختم کر دیا

فریحہ کے مطابق فائر وال کے ذریعے یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ عوام کی کس چیز تک رسائی ہو اور کس تک نہ ہو کیونکہ ہم نے دیکھا کہ لوڈنگ پر سسٹم رہتا ہے اور پھر وی پی این کے ذریعے رسائی حاصل کی جاتی، مگر اب تو  وی پی این کو بھی بلاک کیا رہا ہے۔ فریحہ کے مطابق ایمنسٹی کی رپورٹ سے نے اس حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کہ اس وقت ہائبرڈ حکومت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ ہر وہ غلط کام کر رہی ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ دوسری جانب پی ٹی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے تقاضوں کے تحت ہر ملک میں سرویلنس اور نگرانی کی جاتی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔

Back to top button