گولڈ کنگ سیٹھ عابد کا نیوکلیئر پروگرام سے کیا تعلق تھا؟

آج ہم آپ کو ایک ایسے شخص کی کہانی سنا رہے ہیں جس نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ایک سمگلر کیا لیکن پھر وہ سونے کا ایک کامیاب تاجر بن گیا اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب اسکا نام پاکستان کے جوہری پروگرام سے بھی جوڑ دیا گیا۔
اس کہانی کا آغاز اپریل 1958 میں کراچی سے لاہور جانے والے ایک مسافر کو کراچی ایئرپورٹ پر روکے جانے سے ہوتا ہے، اس مسافر سے 3100 تولہ سونا برآمد ہوا۔ کراچی کسٹم حکام نے جب ایک پریس ہینڈ آؤٹ میں بتایا کہ انھوں نے مسافر سے 2000 تولے سونا ضبط کیا ہے تو پولیس کی تحویل میں موجود اس مسافر نے ان کی تصحیح کی کہ سونا 2000 تولے نہیں بلکہ 3100 تولے تھا۔ یہ شخص جلد ہی جیل سے رہا ہو گیا اور صرف پانچ ماہ بعد ہی قصور کے قریب واقع ایک سرحدی گاؤں میں نمودار ہوا جہاں اسے امرتسر پولیس سے بچنے کے لیے سونے کی 45 اینٹیں بھاری وزن کے باعث چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ پھر چھ سال بعد یہی شخص اسوقت دہلی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے بچ نکلا جب وہ چاندنی چوک میں موتی بازار کے ایک تاجر کے ساتھ سونے کا ایک معاہدہ کر رہا تھا۔ وہ خود تو پولیس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کا ایک ساتھی پکڑا گیا ،جس سے پولیس نے سونے کی 44 اینٹیں بھی برآمد کر لیں۔لاہور سے نکلنے والے ایک اخبار نے سنہ 1977 میں اس شخص کو کچھ ایسے بیان کیا ’وہ ایک گولڈ کنگ ہے، ایک غیر معمولی شخص ہے، جو بھیس بدلنے کا ماہر اور لومڑی جیسا مکار ہے‘۔اس شخص کا نام پاکستان اور انٹرپول کی فہرست میں شامل تھا اور یہ اکثر دہلی، دبئی اور لندن کا سفر کیا کرتا تھا۔ یہ شخص کوئی اور نہیں سیٹھ محمد عابد تھا جو 9 دسمبر 2020 کو 85 برس کی عمر میں کراچی میں وفات پا گیا۔ سیٹھ عابد کو پاکستان میں ’گولڈ بادشاہ‘ کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے اور ان کا شمار ان امیر ترین افراد میں بھی کیا جاتا ہے جن کی دولت کا انحصار سونے کی سمگلنگ پر تھا۔
کہا جاتا ہے کہ سمگلنگ کے کاروبار میں سونے کا بادشاہ بننے کے لیے سرحد کے آر پار اپنے نیٹ ورکس قائم کرنا بہت ضروری ہوتے ہیں اور ریاستی اشرافیہ اور سرکاری افسران کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے ورنہ یہ کاروبار نہیں چل سکتا۔ اس کے علاوہ معاشرے میں اپنا مقام قائم کرنے کے لیے اخلاقی بنیادوں پر خیر سگالی کا ایک وسیع نظام بھی قائم کرنا پڑتا ہے۔ سیٹھ عابد کا عروج بھی پاکستان اور انڈیا کی سرحد پر ہونے والی سونے کی سمگلنگ کا مرہون منت تھا۔ وہ قصور کے سرحدی علاقے میں پیدا ہوئے اور وہیں پر پلے بڑھے، جہاں ان کے شیخ تجارتی قبیلے کے لوگ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کلکتہ سے چمڑے کی تجارت کرتے تھے۔ سیٹھ عابد 1950 میں اس وقت کراچی منتقل ہو گئے جب ان کے والد نے کراچی کے صرافہ بازار میں سونے اور چاندی کا کاروبار شروع کیا۔ کچھ ایسے ماہی گیر جو دبئی سے کراچی سونے کی سمگلنگ کرتے تھے، ان سے ملاقات کے بعد سیٹھ عابد نے سونے کی سمگلنگ کی دنیا میں قدم رکھا۔
50کی دہائی کے اختتام تک انھوں نے ایک ماہی گیر قاسم بھٹی کے ساتھ مل کر پاکستان میں سونے کی سمگلنگ میں اپنی اجارہ داری قائم کی۔سیٹھ عابد کا شمار ان کامیاب سمگلروں میں ہوتا ہے جو پاکستانی تناظر میں سونے کی سمگلنگ اور پھر سمگلنگ کی معیشت میں انتہائی اہم تھے۔ان کی طاقت کراچی کی بندرگاہ، پنجاب کی سرحد، حکومتی انتظامیہ اور سیاسی حلقوں میں تو موجود تھی ہی لیکن وہ سرحد کی دوسری جانب اور اس سے بھی آگے بہت سے کام سر انجام دے سکتے تھے۔ لندن، دلی اور دبئی میں عبوری رابطوں کے ساتھ سیٹھ عابد نے 1950 سے 1980 کے دوران انڈیا کی سونے کی سمگلنگ پر قائم اجارہ داری کو ختم کر دیا۔
سیٹھ عابد یہ تمام تر صلاحیت 1950 کی دہائی کے اواخر تک حاصل کر چکے تھے، ان کا سمگلنگ کا نیٹ ورک لندن، دلی، دبئی اور کراچی میں اپنے قدم گاڑ چکا تھا اور پاکستان اور انڈیا کے مابین پنجاب کے سرحدی علاقوں تک پھیل چکا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ نیٹ ورک انکے قریبی رشتہ داروں پر مشتمل تھا۔ انکے بھائی حاجی اشرف جو بہت فراوانی سے عربی زبان بول سکتے تھے، دبئی میں مقیم تھے، جبکہ ان کے داماد غلام سرور اکثر و بیشتر دلی جاتے تھے اور سونے کے بڑے بھارتی سمگلر ہربنس لال سے ملاقات کرتے تھے۔ سیٹھ عابد کا نام پہلی بار انڈین پریس میں اس وقت سامنے آیا جب 1963 میں ٹائمز آف انڈیا نے خبر دی کہ پاکستان کے ’گولڈ کنگ‘ کے انڈیا میں ’روابط‘ ہیں جبکہ ان کے بہنوئی کو دلی میں سونے کی 44 اینٹوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔
برٹش ایئرویز میں کام کرنے والے چارلس میلونی کو سیٹھ عابد کا برطانیہ میں ’سہولت کار‘ قرار دیا گیا تھا۔ سیٹھ عابد ہر برس حج پر بھی جاتے اور اس کے ساتھ ہی عرب شیخ آپریٹرز کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بناتے۔ جب انکا سمگلنگ کا کاروبار مزید وسیع ہوا تو انھوں نے پنجاب کے سرحدی علاقے کے دیہاتوں میں رہنے والے کچھ ایجنٹس کو سونے کی سمگلنگ کی فرنچائز دی جن میں نمایاں طور پر گھرکی، ڈیال اور اعوان کمیونٹی کے لوگ شامل تھے۔
سیٹھ عابد کے درجنوں حریف تھے لیکن کسی کے پاس بھی ان جیسی صلاحیتیں، روابط اور سرمایہ نہیں تھا۔ ان کے بہت سے حریفوں کے برعکس سیٹھ پر ان کے طویل کیریئر کے دوران کبھی بھی فرد جرم عائد نہیں کی گئی حالانکہ ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج کی گئیں۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں دنیا بھر میں سیٹھ عابد کی سمگلنگ کی تجارت نے فروغ پایا، جس میں کبھی کبھی انھیں ریاست کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی اور لاہور، کراچی، دبئی اور لندن میں سرمایہ کاری اور اثاثوں کی بدولت انھیں پاکستان کے سب سے زیادہ دولت مند لوگوں میں شامل کیا گیا۔ 1970 کی دہائی میں سیٹھ عابد کی سمگلنگ کی وسیع کارروائیوں کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران کچھ رکاوٹوں کا سامنا بھی رہا اور ان کے کچھ اثاثوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ پھر 1974 میں کچھ ایسا ہوا جو کسی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ لاہور شہر میں سیٹھ عابد کی رہائش گاہ پر پولیس کے ایک بڑے چھاپے میں پاکستانی کرنسی جس کی مالیت تقریباً 12.5 ملین تھی، برآمد ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ چالیس لاکھ مالیت کا سونا، 20 لاکھ مالیت کی سوئس گھڑیاں بھی قبضے میں لی گئیں۔ اس چھاپے میں لاہور پولیس نے تین گاڑیاں اور درجن بھر گھوڑوں کو بھی اپنی تحویل میں لیا جنھیں واہگہ سرحد کے آر پار غیر قانونی سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اخبارات نے اس خبر کی سرخی کچھ ایسے لگائی: ’پاکستان کی تاریخ کا سمگلنگ کا سب سے بڑا کیس‘ اور ’پاکستان کے گولڈ کنگ‘، سیٹھ عابد پر عالمی سطح پر سمگلنگ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ تب کے وزیر اعظم بھٹو نے ’سیٹھ عابد انٹرنیشنل سمگلنگ کیس‘ کے لیے ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا جس نے درجنوں گواہان کے بیان ریکارڈ کیے جبکہ دوسری طرف طلبی وارنٹ کے باوجود سیٹھ عابد ٹربیونل کے سامنے پیش نہ ہوئے۔ یوں سیٹھ عابد کی عدم گرفتاری کا معاملہ نہ صرف پاکستانیوں کی روز مرہ کی گفتگو کا حصہ بن گیا بلکہ بھٹو حکومت کے لیے ریاستی رٹ کا بھی ایک ٹیسٹ کیس بن گیا۔
پھر پاکستان کے مطلوب ترین شخص کی تلاش کے لیے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن لانچ کیا گیا، جس میں پاکستانی فوج، پولیس، رینجر اور نیول گارڈ کی چھاپہ مار ٹیموں کو تشکیل دیا گیا۔ کراچی میں سیٹھ عابد کی رہائش گاہ پر بھی چھاپہ مارا گیا جہاں سے بڑی تعداد میں غیر ملکی کرنسی اور سونے کی اینٹیں برآمد کی گئیں۔ 1977 کے اوائل میں جب کراچی کوسٹل گارڈ کو یہ اطلاع ملی کہ سیٹھ عابد نارتھ ناظم آباد میں اپنی ’گرل فرینڈ‘ کو ملنے آ رہے ہیں، تو وہاں بھی چھاپہ مارا گیا لیکن پولیس کی آمد سے پہلے ہی سیٹھ عابد وہاں سے فرار ہو گئے۔ تاہم بھٹو حکومت الٹائے جانے کے چند ماہ بعد ستمبر 1977 میں سیٹھ عابد نے اپنی مرضی سے ضیا کی فوجی حکومت کے سامنے ’رضاکارانہ طور پر‘ ہتھیار ڈال دیے اور بھٹو حکومت کی جانب سے اپنے ضبط کردہ اثاثوں کی واپسی کے لیے بات چیت شروع کی۔ اسی سال دسمبر میں سیٹھ نے لیفٹیننٹ جنرل جہانزیب ارباب کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر ہسپتال کے تعمیراتی منصوبے اور عباسی شہید ہسپتال کے برن وارڈ کے لیے 151،000 روپے کی بڑی امداد دی۔
پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ کل تک سونے کا سمگلر کہلانے والا سیٹھ ایک پرعزم ’محب وطن‘ کا درجہ پا گیا، جو ریاست اور معاشرے کی بھلائی کے لیے فراخدلی سے عطیات دے رہا تھا۔ سیٹھ عابد کی اس شہرت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب ان کا نام ملک کے ’جوہری پروگرام‘ میں بھی سامنے آیا اور یہ مشہور ہو گیا کہ انہوں نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے لیے چند انتہائی مطلوب پرزے اپنے سمگلنگ نیٹ ورک اور ریکٹ کے ذریعے پاکستان منگوا کر اسٹیبلشمنٹ کا دل جیت لیا ہے۔
پھر ایک وقت آیا جب ’سیٹھ عابد بین الاقوامی سمگلنگ کیس‘ پر 1985 میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی جسکے بعد چوہدری نثار علی کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے اس کیس کی تفتیش کی ذمہ داری اٹھائی۔ 1986 میں پاکستان سنٹرل بورڈ آف ریونیو نے سیٹھ عابد کے ضبط شدہ 3100 تولے سونے کی واپسی کی اجازت دے دی جسے 1958 میں کسٹم حکام نے کراچی ایئرپورٹ پر سیٹھ عابد سے اپنی تحویل میں لیا تھا۔
پاکستانی تناظر میں سیٹھ عابد کو بڑے پیمانے پر ایک ایسے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے پاکستان کے ’جوہری پروگرام‘ کی ترقی میں معاونت کر کے ایک سمگلر سے خود کو ایک قومی لیجنڈ بنا لیا۔ بعد ازاں بہرے اور گونگے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے حمزہ فاؤنڈیشن جیسے انسان دوست ادارے قائم کرنے کے علاوہ سیٹھ عابد نے فلاحی اداروں کو مالی اعانت فراہم کی جس میں لاہور میں عمران خان کا شوکت خانم کینسر ہسپتال بھی شامل ہے۔ اگرچہ سیٹھ نے ساری زندگی تشہیر سے گریز کیا لیکن پھر بھی انھیں بے پناہ شہرت ملی۔ ان کا نام قومی سطح پر اس وقت پھر مشہور ہوا جب انھوں نے ایک ٹی وی شو میں نیلامی کے دوران کرکٹر جاوید میانداد کا شارجہ اننگز میں استعمال ہونے والا بلا اپنے بیٹے کے لیے پانچ لاکھ میں خریدا۔ بعد کی زندگی میں سیٹھ عابد کے حوالے سے اخباروں کی سرخیاں ان کی مجرمامہ کارروائیوں کی وجہ سے نہیں بنیں بلکہ لاہور میں ان کے جواں سال بیٹے کے قتل کی وجہ سے بنیں۔ یاد رہے کہ ان کی زیر ملکیت ایئرلائن ہاؤسنگ سوسائٹی میں زمین کے تنازع پر ان کے بیٹے سیٹھ حافظ ایاز احمد کو قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد سیٹھ عابد مکمل طور پر گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔
1990 کی دہائی تک، وہ لاہور کے مختلف مقامات پر وسیع پراپرٹی رکھنے کی وجہ سے شہر کے سب سے زیادہ وسائل رکھنے والے پراپرٹی ڈویلپر بن کر ابھرے۔ وہ کراچی میں بھی کئی جائیدادوں کے مالک تھے اور پاناما لیک میں نام آنے کے بعد انھوں نے اپنے اثاثے برٹش ورجن آئی لینڈ میں منتقل کر دیے تھے۔ سمگلنگ کی دنیا میں ان کے کارناموں کے بارے میں بہت ساری کہانیاں موجود ہیں۔ میڈیا آج بھی سیٹھ عابد کو ایک رومانوی کردار بنا کر پیش کرتا ہے اور ان کے فرار اور گلیمر سے بھری زندگی پر بات کی جاتی ہے۔ جب اخبارات نے انھیں ’بدنام زمانہ پاکستانی سونے کے بادشاہ سمگلر‘ کی حیثیت سے پیش کیا تو سیٹھ نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اپنے آپ کو ایسے لوگوں میں سے ایک شخص کے طور پر پیش کیا جس نے سونے کو عام لوگوں کی رسائی تک پہنچایا۔ سرحدی کاموں کے بارے میں دنیا کے سامنے اپنے وژن کو واضح کرتے ہوئے سیٹھ عابد نے لاہور کے ایک اخبار کے ایڈیٹر کو بتایا: ’مجھے سونے کا بدنام سمگلر کیوں کہا جاتا ہے؟ میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیوں کے لیے سستا سونا فراہم کر رہا ہوں۔ میں معاشرے اور ریاست کے لیے عمدہ خدمات انجام دے رہا ہوں۔ کسی بھی تعریف اور پہچان کی بجائے میں بدنام ہوچکا ہوں۔‘ سیٹھ عابد اب وفات پا چکے ہیں لیکن انہیں بطور ایک کامیاب سمگلر، سونے کا تاجر، سٹاک مارکیٹ ایکسچینجر، انسان دوست اور سب سے بڑھ کر بطور رئیل سٹیٹ کا ایک بہت بڑا نام، یاد رکھا جائے گا۔