اپنی کرسی کی خاطرپیاروں کو قربان کرنے والا کپتان

اسلام آباد میں عمران خان مخالف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں چلنے والی سیاسی آندھی زوروں پر ہے۔ 2018 میں ہائیبرڈ نظام کے تحت بسایا جانے والا مکان اب ریگستان بنتا جا رہا ہے۔ جھاڑو اور جھاڑن، سب اپنی اپنی راہ لے رہے ہیں۔ قیامت کا سماں ہے اور عمران کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا ہے۔ وہ ایک چیز سنبھالتے ہیں تو دوسری اڑان بھر کے کہیں اور چلی جاتی ہے۔
آندھی کی اس منہ زوری کا سب سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ انہیں پنجاب کے اس وزیر اعلیٰ کی قربانی دینا پڑی جس کی کارکردگی کو وہ ایک نظیر کے طور پر پیش کرتے تھے۔ جس کے بارے میں انہوں نے ایک سے زیادہ بار اعلان کیا تھا کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے، بزدار ہی وزیراعلیٰ رہیں گے۔
معروف لکھاری اور سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مریم نواز کی جانب سے دی گئی ایک پرانی کہاوت کا ذکر کیا ہے کہ جب بندریا کے پاؤں جلتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو پیروں تلے رکھ لیتی ہے۔ گویا بچے جلیں تو جلیں، پاؤں تو جلن سے راحت پائیں۔ مریم کے بقول خان صاحب کے پاؤں جلے تو انہوں نے عثمان بزدار کو پاؤں تلے رکھ لیا۔
خیر! یہ تو ایک سیاسی چٹکلا ہے لیکن اس سے اس عظیم صداقت کا بھی اظہار ہوتا ہے جسے مولانا ابوالکلام آزاد نے اس عظیم جملے میں سمو دیا تھا کہ ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا“۔ کیا ستم ہے کہ اپنی ڈگمگاتی وزارت عظمیٰ بچانے کے لئے خان صاحب نے نہ صرف اپنی متاع عزیز کو کوڑے دان میں پھینک دیا بلکہ اپنے 183 ارکان صوبائی اسمبلی کو ایک طرف رکھتے ہوئے پرویز الہی کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا جس کی پارٹی کے پنجاب میں صرف دس اراکین اسمبلی ہیں۔
بقول عرفان صدیقی، اسے کہتے ہیں اصول کشی اور این آر او، یہ ہے سیاست کا وہ حمام جس میں ”صادق اور امین“ ہونے کے باوجود خان صاحب بھی بے لباس کھڑے ہیں۔ فارن فنڈنگ کے آٹھ سالہ کیس پر وہ آج بھی پہلو تہی اور گریز پائی کی ایک نئی کوشش میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں توشہ خانے کے بارے میں اٹھائے گئے ہر سوال کا جواب ایک ہی جملے میں آتا ہے کہ ”ایسا بتانا ریاست کے مفاد میں نہیں“۔
اس کے باوجود خان صاحب امر بالمعروف کے سب سے بڑے مبلغ ہیں اس کے باوصف وہ ریاست مدینہ کے پاکباز حکمران ہیں اور اس کے باوجود وہ پھیپھڑوں کی پوری طاقت بروئے کا ر لاتے ہوئے حضرت عمر فاروقؓ کی مثال دے سکتے ہیں کہ کس طرح خلیفہ وقت سے ان کے کرتے کے بارے میں سوال پوچھا گیا تھا۔ قول اور فعل میں ایسے بھیانک تضاد کے باوجود خان صاحب کی طرف انگلی اٹھانا، ارتداد کے زمرے میں آتا ہے اور ارتداد کی سزا بہت کڑی ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ خان صاحب کا پریڈ گراؤنڈ جلسہ بھی کوئی جادو نہ جگا سکا۔ اس کی ذمہ داری بھی خان صاحب اور ان کے عقل سے عاری مشورہ نویسوں پر عائد ہوتی ہے۔ عوام، خاص طور پر فدائین کی توقعات کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیا گیا۔ دس لاکھ حاضرین کا تعین بھی کر دیا گیا۔ کسی نادیدہ ”ٹرمپ کارڈ“ کا تجسس بھی ابھارا گیا۔ جلسہ تو ہو گیا۔ حاضری کو جانے دیجئے۔ خود سرکار کی ایجنسیاں اسے 25 سے 30 ہزار بتاتی ہیں۔ چلیں دس لاکھ مان لیتے ہیں۔ لیکن لوگ کوئی عزم نو لے کے نہ لوٹے۔
خان صاحب ایک ماہر اور مشاق مداری کی طرح، تھوڑے تھوڑے وقفے سے، اپنی پٹاری پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتے رہے کہ وہ ایک ایسا شیش ناگ نکالنے والے ہیں جو ایک ہی پھنکار سے ان کے مخالفین کو بھسم کر ڈالے گا۔ کامل ایک گھنٹہ پچاس منٹ تک اشتیاق بڑھانے اور انتظار کی صلیب پر جھولا جھلانے کے بعد انہوں نے پٹاری سے جو کچھ نکالا وہ شیش ناگ تو کیا، کوئی جھاڑ جھنکاڑ والا معمولی سنپولیا بھی نہیں، بس ایک مریل سا برساتی کینچوا تھا جو رینگتا ہوا سٹیج سے نیچے گرا اور ایک نعرہ زن حسینہ کے قدموں تلے کچلا گیا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران کو اپنے ہونے چار سالہ دور حکومت میں صرف ایک ہی فکر دامن گیر رہی کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کی مشکیں کس طرح کسی جائیں؟ انہیں کس کولہو میں پیلا جائے کہ ان کی ہڈیاں بھی سرمہ ہو جائیں۔ ریاست مدینہ کے خود تراشیدہ نظریہ احتساب کے مطابق انہوں نے نواز شریف اور ان کے ہر تعلق دار کو نمونہ عبرت بنانا، سب سے بڑا کار ثواب جانا۔ پونے چار برس ان کی بارگاہ ناز کی تمام سرکاری و غیر سرکاری مجلسیں، اسی سوال کے گرد گھومتی رہیں کہ شریفین اور ان کے متعلقین کا کچومر نکالنے کے لئے کیا کیا جائے؟ نیب، ایف۔ آئی۔ اے، اینٹی نارکوٹکس، اینٹی کرپشن، پولیس، انتظامیہ، غرض ہر چھوٹے بڑے ادارے یا محکمے کو اسی جہاد پر لگا دیا۔
اگر معاملہ ان اداروں اور محکموں کو سپرد کر کے خان صاحب یکسو ہو جاتے اور اپنی توجہ دیگر اہم قومی معاملات پر مرکوز کر دیتے تو بھی شاید بانجھ کشت ویراں کوئی پھل دے دیتی لیکن خان صاحب اپنی خوئے انتقام کی آسودگی کے لئے ادنیٰ درجے کی تفصیلات اور جزئیات کی نگرانی بھی خود کرنے لگے۔
بقول عرفان صدیقی، اپنے دور اقتدار میں پاکستان کی بہتری اور عوام کی فلاح پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے منتقم مزاج عمران خان نے اپوزیشن کے احتساب کو اپنی اولین ترجیح بنا کر رکھا۔ فلاں کے خلاف اب تک کیس کیوں نہیں بنا؟ فلاں کے خلاف اب تک ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا گیا؟ فلاں کو ہتھکڑی کیوں نہیں ڈالی گئی؟ فلاں کے سیل میں اے۔ سی کیوں ہے؟ فلاں کے سیل سے پنکھا کیوں نہیں اتارا؟ فلاں کو گدے پر سونے کی اجازت کیوں دی؟ فلاں کے گھر سے کھانا کیوں آتا ہے؟ فلاں پیشی کے لئے لایا جاتا ہے تو کپڑے استری کیوں ہوتے ہیں؟ بیٹی کو باپ کے سیل کے قریب کیوں رکھا گیا؟ اس طرح کی بیسیوں الجھنیں خان صاحب کے اعصاب پر سوار رہیں۔ ملک کے گمبھیر مسائل بوسیدہ غیر مستعمل کپڑوں والی کوٹھڑی میں پھینک دیے گئے۔
حکومت نے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر بند کرنے کا اعلان کردیا
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ کہ 43 ماہ تک خان صاحب اپنی کشت انتقام کو پانی لگاتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک داخلی طور پر تباہ اور خارجی طور پر تنہا ہو گیا۔ اس مشق بے ثمر کے بارے میں اب خان صاحب اور ان کے وزراء کا کہنا ہے کہ لندن میں بیٹھا ایک شخص عالمی طاقتوں سے مل کر حکومت کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کے ہر تیر، الزام اور سنگ دشنام کے بعد بھی لندن میں بیٹھا شخص اس قدر طاقتور ہے کہ عالمی طاقتیں اس کے اشاروں پر ناچتی ہیں تو کیا قومی مفاد کا تقاضا نہیں کہ آپ رضا کارانہ طور پر ایک طرف ہو کر ملک کی باگ ڈور اسے سونپ دیں؟
Captain who sacrifices his love for his chair Urdu news | video