حکومت توہین عدالت کے ذریعے سپریم کورٹ کو پھنسانا چاہتی ہے

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ شہباز شریف اور ان کی کابینہ نےاب تک جو کچھ بھی کیا ہے وہ ریاستی موقف کی ترجمانی ہے. حکومت خود چاہتی ہے کہ اس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو، اگر ایسا ہوا تو سپریم کورٹ کے لئے بڑی مشکل ہو جائے گی، سپریم کورٹ اگر وزیراعظم ، وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ کو ٹارگٹ کرے گی تو ایک قانونی پیچیدگی پیدا ہو جائے گی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ میں منظور ہونی قرار داد کے حوالے سے ایک ٹی وی پروگرام میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی سربراہی میں ایک بینچ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور ہوگئی ہے اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کی حکم عدولی کے نتیجے میں وزیراعظم یا کسی وزیر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوتی ہے تو اٹارنی جنرل کورٹ میں کہے گا کہ وزیراعظم کو اور حکومت کو پارلیمنٹ نے پابند کیا تھا کہ آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ماننا۔
یہ سپریم کورٹ کے لئے بڑا مشکل ہو جائے گا سپریم کورٹ اگر وزیراعظم ، وزیر خزانہ، وزیر داخلہ کو ٹارگٹ کرے گی تو ایک قانونی پیچیدگی پیدا ہوجائے گی۔ مجھے لگتاہے کہ حکومت چاہتی یہ ہے کہ عدالت اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے . توہین عدالت کی کارروائی پر حکومت والے پھر ایک اور قانونی نقطہ نکالیں گے کہ پارلیمنٹ کے اندر جو گفتگو ہوتی ہے یا اس کی جو کاروائی ہوتی ہے اس پر جج توہین عدالت نہیں لگا سکتے۔ کیوں کہ یہ ایک آئینی شق ہے اس طرح عدالت کے لئے بہت مشکل پیدا ہوجائے گی۔
حامد میر نے کہا کہ ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب کوئی بھی مسئلہ سیاستدان حل نہیں کرسکتے یا پارلیمنٹ سے مسئلہ حل نہیں ہوتااور وہ عدالت میں جاتا ہے اور عدالت بھی مسئلہ حل نہیں کرتی تو بحران شدید ہو جاتا ہے اس کے بعد جمہوری سسٹم ڈی ریل ہوجاتا ہے اور پھر فوج کومداخلت پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ شہباز شریف اور ان کی کابینہ نے ابھی تک جو کچھ بھی کیا ہے وہ ریاستی موقف کی ترجمانی ہے۔ پچھلے سال مئی کے مہینے میں شہباز شریف تو اسمبلی توڑنا چاہتے تھے لیکن ان کو اسمبلی نہیں توڑنے دی گئی۔حامد میر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ آپ نے دس اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنا ہے اور الیکشن کمیشن کو یہ کہا گیا ہے کہ آپ نے11 اپریل کوسپریم کورٹ کو بتانا ہے کہ آ پ کو21 ارب روپے ملے یا نہیں ملے، اب پاس ہونے والی قرارداد کے مطابق پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا شیڈول نظر انداز کردیا جاۓ ، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کرنا۔
اس کے بعد الیکشن کمیشن11 اپریل کو سپریم کورٹ جائے گا اور وہ بتائے گا کہ ہمیں تو حکومت نے پیسے نہیں دیئے عدالت اٹارنی جنرل کو پوچھیں گی کہ آپ نے پیسے کیوں نہیں دیئے اٹارنی جنرل کہے گا کہ پارلیمنٹ نے لاگو کردیا ہے کہ آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ماننا۔اس کے بعد کیا ہوگا اس کے بعد الیکشن ایکٹ2017ء کی سیکشن 59 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان یہ کہہ سکتا ہے کہ حالات ایسے ہیں کہ ہم الیکشن کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لہٰذا ہم الیکشن ایک دفعہ پھر ملتوی کررہے ہیں۔اس کے بعد کیا چیف جسٹس ، چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کردیں گے؟
حامد میر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بہت دیر کردی، تحریک انصاف اب اگر مذاکرات کی بات کررہی ہے تو اس لیے کررہی ہے کہ اس کو بھی یہ سمجھ آگئی ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اور اس کے اتحادی کسی بھی صورت میں سپریم کورٹ کے سامنے سرینڈر کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، انہوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ اب صرف وزیراعظم اور ان کی کابینہ نہیں پوری قومی اسمبلی کھل کر سامنے آگئی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس کے ججز کے حوالے سے پی ٹی آئی نے جو کیا تھا حکومت بھی وہی کرنا چاہتی ہے، جو پک رہا تھا وہ تیار ہوچکا ہے، شاید اسےاب ہنڈیا سے نکال کر پلیٹوں میں سجاکر پیش کردیا جائے گا. تحریک انصاف کو پتا ہے کہ الیکشن کمیشن جب گیارہ اپریل کو سپریم کورٹ کو بتائے گا کہ وزارت خزانہ نے ہمیں اکیس ارب روپیہ ٹرانسفر نہیں کیا ہے تو اس کے بعد وہ جو الیکشن ایکٹ 2017ء ہے اس کے تحت وہ کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس ریسورسز نہیں ہیں اور ہم نے الیکشن نہیں کروانا، اس کے بعد سپریم کورٹ کیا کرے گی؟،
کیا چیف الیکشن کمشنر پر توہین عدالت لگائے گی؟، اسی لیے تحریک انصاف کی قیادت کوئی راستہ نکالنا چاہ رہی ہے کہ کسی طریقے سے چودہ مئی کو الیکشن ہوجائے لیکن کیونکہ سیاسی کشیدگی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب کوئی اپنی انا کا بت گرانے کیلئے تیار نہیں ہے، کوئی بھی آئین کا احترام کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، مجھے نہیں لگ رہا تحریک انصاف مذاکرات کا اشارہ دے رہی ہے تو حکومت اس سے مذاکرات کر ے گی، حکومت نے تو اب واضح کردیا ہے کہ بات ہوگی تو صرف فل کورٹ پر ہوگی، ابھی بھی تحریک انصاف کو سمجھ نہیں آئی۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ عمران خان جنرل باجوہ کو لائف ٹائم ایکسٹینشن کی آفر کرتے ہیں پھر اس سے انکار کردیتے ہیں، یہی کچھ وہ موجودہ آرمی چیف کے بارے میں کررہے ہیں، اب تحریک انصاف نے موجودہ فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے چینل کھولنے کی بہت کوشش کی، بہت زور لگایا، چاروں طرف سے پیامبر بھیجے لیکن فوج کا یہ خیال ہے کہ آپ ہمیں سیاست سے دور رہنے دیں۔جب وہ ان سے بات چیت کیلئے تیار نہیں ہوتے تو پھر یہ انہیں پریشرائز اور بلیک میل کرنے کیلئے ایسا انٹرویو دیتے ہیں کہ شاید وہ پریشرائز ہوجائیں لیکن وہ نہیں ہورہے، آپ کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا بہت جلد آپ کو پتا چل جائے گا کہ حالات کدھر جا رہے ہیں۔
عمران خان کا جہاں تک یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہے وہ آرمی چیف کرتا ہے اور آرمی چیف پاکستان کا سب سے طاقتور انسان ہے ، یہ بات بھی وہ پہلے کئی دفعہ کہہ چکے ہیں، ان کی کتاب پڑھیں جو 2016ء میں شائع ہوئی تھی اس میں بھی انہوں نے یہی باتیں لکھی ہوئی ہیں اور آج 2023ء میں بھی وہ یہی باتیں کرتے ہیں، درمیان میں ایک پیریڈ آیا تھا جب جنرل باجوہ ان کیلئے بہت بڑے ڈیموکریٹ جنرل بن گئے تھے بعد میں پھر انہوں نے کہا کہ فساد کی جڑ یہی ہے اگر باجوہ صاحب کے بارے میں انہوں نے یوٹرن مارے ہیں ، اپنی اسٹیٹمنٹ کو تبدیل کیا ہے تو موجودہ آرمی چیف کے بارے میں بھی وہ ایسا بار بار کرتے رہے ہیں کررہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔