عمران حکومت سے مذاکرات کی بھیک کیوں مانگ رہے ہیں؟

عمران خان کی جارحانہ حکمت عملی اور الزام تراشیوں کی وجہ سے تمام ریاستی قوتوں کی جانب سے دھتکارے جانے کے بعد اب تحریکِ انصاف کی جانب سے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا عندیہ دینا شروع کر دیا ہے۔ اور عمران خان ان سیاسی قوتوں کے ساتھ بھی بیٹھنے پر تیار ہیں جن کی قیادت کو وہ چور اور ڈاکو کے القابات سے نوازتے تھے اور ان کے ساتھ گفت و شنید کو اپنی سیاسی موت گردانتے تھے۔ تاہم پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات کا پیغام ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب ملک میں سیاسی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں سخت موقف رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں تاہم حالیہ دنوں میں انہوں ںے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔حال ہی میں سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقات میں انہوں نے مجوزہ کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت کا بھی عندیہ دیا ہے۔پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل مذاکرات کی آفرز آنے کے بعد اب پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے تین اہم ترین وزرا نے گذشتہ دو دنوں میں تین ایسے بیانات دیے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ گرما گرم سیاسی ماحول کے پس پردہ کچھ ایسا ہو رہا ہے جس سے آنے والے دنوں میں قومی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں اور بالاخر تمام سیاسی قوتیں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف بڑھ سکتی ہیں۔
وفاقی وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آخرکار ہمیں آپس میں بیٹھنا ہے اور ان کے ساتھ بھی بیٹھنا پڑے گا جن کی شکل ہمیں پسند نہیں ہے۔’جس بحران کا ہم سامنا کر رہے ہیں، جمہوری، آئینی، سکیورٹی، معاشی، اس کا حل اتحاد ہے، ہمیں سب کو مل کر ان مسائل کا حل نکالنا ہو گا۔‘ بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ’جن کا ماضی اتنا خاص نہیں، جن کے مستقبل پر ہمارا شک ہے، شاید ان کے ساتھ بھی ہمیں بیٹھنا پڑے گا، اگر ہم نے اس بحران سے نکلنا ہے تو نہ میرا نہ آپ کا، ہم سب کا پاکستان۔‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعرات کے روز سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی حل ڈھونڈنا ہے، مذاکرات ہونے ہیں تو اس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔‘’سیاستدان صرف ایک سٹیک ہولڈر ہیں۔ یہ ادارہ سپریم کورٹ بھی سٹیک ہولڈر ہے، پنڈی والے بھی سٹیک ہولڈر ہیں، میڈیا بھی سٹیک ہولڈر ہے، انتظامیہ یا ایگزیکٹو بھی سٹیک ہولڈر ہے، جامع مذاکرات ہونے چاہیئں۔ صرف مذاکرات مذاکرات کھیلنے کا کھیل نہیں ہونا چاہئے۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی سپریم کورٹ کے احاطے میں ہی کھڑے ہو کر کہا کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو پہلے معیشت پر بات کی جائے۔ پہلے معیشت کے بارے میں طے کریں نا، یہ جو معیشت کا بٹھہ بیٹھا ہے، جو عام آدمی جن مشکلات کا شکار ہے اس کا کیا کرنا ہے، اس کے بعد جو یہ سیاسی ٹیمپریچر ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ بیٹھ کر بات پہلے ہو گی اور اس میں یہ باتیں طے ہوں گی۔واضح رہے کہ جامع مذاکرات کے متعلق حکومت کے تین اہم اراکین کے بیانات وزیراعظم شہباز شریف کے اس بیان کے بعد آئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان سے مذاکرات صرف اسی صورت میں ہوں گے جب وہ اپنی غلطیوں کی معافی مانگیں گے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف متعدد بار ان مذاکرات پر رضامندی ظاہر کر چکی ہے اور یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ آگے بڑھنے کے لیے بات چیت پر تیار ہیں۔تاہم جمعرات کو پی ٹی آئی کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری نے بتایا کہ انہیں ابھی مذاکرات کے انعقاد کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ گرینڈ ڈائیلاگ کی باتیں محض بیان بازی تک محدود ہیں۔ ’یہ لوگ بات کرتے ہیں لیکن اس میں کوئی ٹھوس چیز نہیں آ رہی، یہ صرف بیان بازی تک محدود ہے۔‘’جب مذاکرات کی بات پر حکومت کے نمائندے اعظم نذیر تارڑ سے کہا گیا کہ ڈائیلاگ کیسے ہو گا، تو آگے ان کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں تھا۔‘
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ فی الوقت انہیں مذاکرات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔’اگر یہ نوے روز میں انتخابات نہیں کرواتے تو یہ آرٹیکل سکس کی طرف جائیں گے۔ ہمیں آئین پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ اور اگر آئین پر عمل نہ ہوا تو ہم سڑکوں پر ہوں گے اور وکلا کے ساتھ مل کر آئین کے لیے تحریک چلائیں گے۔الجماعتی کانفرنس کی تجویز پر رضامندی سے متعلق پی ٹی آئی کے نائب صدر فواد چوہدری نے بھی تصدیق کردی ہے۔ فواد چوہدری کے مطابق عمران خان نے اِس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس ہو، جس میں آئندہ انتخابات پر بات ہو۔ سیاسی جماعتیں ساتھ بیٹھ کر الیکشن کا لائحہ عمل بنائیں۔ اُن کے مطابق عمران خان سے بات ہوگئی ہے اور یہ سلسلہ اب آگے بڑھے گا۔
دوسری جانب مبصرین سمجھتے ہیں کہ اب برف پگھل رہی ہے اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو احساس ہو رہا ہے کہ تمام مسائل کا حل آپس کی گفتگو سے ہی ممکن ہے۔پاکستان میں بڑھتے سیاسی بحران کو روکنے کے لیے پاکستان کی سول سوسائٹی ملک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں اور اُن کے سربراہوں کو ایک میز پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اِس سلسلے میں سو سے زائد ارکان اور تنظیموں کے نمائندے مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ سیاسی بحران کا حل ڈھونڈا جائے۔اس میں سول سوسائٹی کی تنظیمیں، بار کونسلز، انسانی حقوق کی تنظیمیں، صحافی، ایڈیٹرز، خواتین کے حقوق کی تنظمیں، ٹریڈ یونینز اور دانشور شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ 33 مختلف تنظیمیں بھی اس کوشش میں شامل ہیں۔ سیاسی مفاہمت کے لیے متحرک ہونے والی سول سوسائٹی کے ارکان ’میڈی ایٹرز‘ نامی پلیٹ فورم سے فعال ہوئے ہیں۔
اس پلیٹ فورم کے کوارڈینیٹر اور سینئر صحافی امتیاز عالم بتاتے ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے نہیں آئے بلکہ وہ 50 برس سے زائد عرصے سے ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اُنہیں نظر آیا کہ سیاست دانوں کا جھگڑا اتنا بڑھ گیا ہے کہ جس سے انتخابی عمل مشکوک ہو سکتا ہے اور سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔اُن کے مطابق سول سوسائٹی نے اِن خطرات کے پیشِ نظر وکلا تنظیموں، صحافتی تنظیموں اور دیگر مدبرین سے بات کر کے ایک اتفاق رائے پیدا کیا ہے۔ وہ ایک نقطہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ایک آل پارٹیز کانفرنس میں انتخابات کے فریم ورک اور اس کے وقت کے تعین کے لیے متفقہ راستہ نکالیں۔امتیاز عالم نے کہا کہ ہماری خواہش ہوگی کہ آل پارٹیز کانفرنس میں جو بھی طے ہو وہ پارلیمنٹ میں جائے اور اُس پر قانون سازی ہو جس میں پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں شامل ہوں۔
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب اِس سارے عمل کو مثبت سمجھتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح سے حالات چل رہے ہیں اِس میں پریشانی کی بات ہی یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر انتخابات کے وقت اور تاریخ کا تعین کیوں نہیں کرتیں۔اُن کا کہنا تھا کہ’ میڈی ایٹرز‘ کے اِس عمل کے نتیجے میں اگر سیاسی جماعتیں اکٹھی بیٹھ جاتی ہیں تو یہ اور بہت اچھی بات ہے۔پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب بتاتے ہیں کہ ماضی میں ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے کہ سیاسی جماعتیں جب اپنے مسائل خود حل نہ کرپا رہی ہو ں تو کوئی دوسرا اِنہیں ایک ساتھ بٹھاتا ہے۔تاہم ان کے نزدیک سول سوسائٹی کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہے۔