عمران اور جنرل فیض دہشتگردی کے ذمہ دار کیوں ہیں؟

پاکستان میں حالیہ دہشتگردی اور شدت پسندی کے ذمہ دار عمران خان اور جنرل فیض حمید ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر نہ صرف ملک دشمن طالبان کے سرکش رہنماوں کو آزاد کروایا بلکہ ان کی پرامن قبائلی علاقوں میں دوبارہ آباد کاری میں بھی سہولتکاری کی۔ طالبان کو دی گئی یہی شہہ اب ملک کے مختلف شہروں میں بدامنی کا سبب بن رہی ہے۔
سینئر صحافی وسعت اللہ خان ملک میں پے در پے دہشتگردی کے واقعات بارے اپنے تنقیدی تجزیے میں کہتے ہیں کہ اب دکھائی دے رہا ہے وہ حمام جس میں سب کے سب ایک دوسرے کو بلا خوف و شرم دیکھ سکتے ہیں۔ ہر ایک کی انگشتِ شہادت سامنے والے کی طرف اور تین انگلیاں اپنی جانب اور انگوٹھا سُو آسمان ہے۔جب کوئی حکمتِ عملی کسی کے بھی پاس نہ ہو تو ہر کوئی سر کٹی مرغی کی طرح کبھی اس دیوار سے ٹکرا رہا ہوتا ہے تو کبھی اس در سے۔تیس جنوری کو پشاور کے ہائی سکیورٹی زون میں کس کی غفلت ایک سو ایک پولیس والوں کی بیویوں کو بیوہ یا بچوں کو یتیم کر گئی؟جی اُس سے پوچھیں، مجھ سے کیا پوچھ رہے ہیں۔ میں تو اس دن وہاں تھا ہی نہیں۔سترہ فروری کو کراچی پولیس کے انتظامی مرکز پر دھشت گرد حملہ کیسے ممکن ہوا۔ جبکہ تیس جنوری کو پشاور کے ہائی سکیورٹی زون کے خونی واقعے کے بعد تمام صوبوں میں ایک بار پھر تین ہزار پانچ سو پچیسویں مرتبہ ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا تھا؟
معلوم نہیں سر جی۔ معلوم کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے سر جی۔
لا اینڈ آرڈر آخر کس کی ذمہ داری ہے؟
میری تو نہیں ہے تیری ہے، اس کی ہے، فلانے کی ہے۔
طالبان کو کون یہاں لا کے بسانا چاہ رہا تھا؟
قسم خدا کی کم ازکم میں نہیں تھا۔ خدا جانے فیض تھا کہ باجوہ یا پھر عمران وغیرہ وغیرہ۔
طالبان سے جنگ بندی کس نے کی، کیوں کی اور کب کی؟
اللہ بہتر جانتا ہے، نہ پارلیمنٹ جانتی ہے اور نہ ہی حکومت۔ فلانے جنرل کو شاید کچھ معلوم ہو اگر اسے کچھ بتانے کی اجازت ہو۔مبلغ ایک سو مطلوب طالبان کس کی فرمائش پر گذشتہ برس چپکے سے رہا کر دیے گئے اس امید پر کہ شاید وہ آئینِ پاکستان تسلیم کر لیں؟ملالہ پر حملے، اے پی ایس قتلِ عام اور دیگر کئی وارداتوں کا سرکاری ٹی وی چینل پر اعتراف کرنے والے احسان اللہ احسان نے کیوں اپنی مرضی سے فروری 2017 میں خود کو فوج کے حوالے کر دیا۔ اور پھر کیوں انتہائی کڑے پہرے سے جنوری 2020 میں فرار ہو گیا۔وسعت اللہ خان کہتے ہیں احسان اللہ احسان کے فرار کو تب تک قومی راز کے طور پر کیوں چھپایا گیا جب تک خود احسان اللہ نے ویڈیو جاری کر کے خبر بریک نہیں کی۔ احسان اللہ کوئی تین برس فوجی حراست میں رہا۔ کیا اس پر کوئی فردِ جرم باضابطہ طور پر عائد ہوئی؟
کس کی غفلت سے فرار ہوا؟ اس ذمہ دار کا نام کبھی باضابطہ مشتہر ہوا یا ہوگا؟ کبھی چھان بین ہوئی کہ برادر احسان اللہ کس ملک میں ہیں؟ کیا اس ملک سے ان کی حوالگی کے لیے کبھی کسی نے رابطہ کیا؟القاعدہ سے وفادار کالعدم لشکرِ جھنگوی بلوچستان کا امیر عثمان سیف اللہ کرد کوئٹہ چھاؤنی کے ہائی سکیورٹی قید خانے سے 2008 میں کیسے فرار ہوا اور پھر سات برس بعد کن حالات میں مارا گیا؟وسعت اللہ کے مطابق معزز رکنِ پنجاب اسمبلی معاویہ اعظم طارق تو انسدادِ دھشت گردی ایکٹ مجریہ 1997 کے شیڈول فور کی لسٹ پر تھے۔ وہ تو قانوناً متعلقہ تھانے کو اطلاع کیے بغیر گھر سے بھی نہیں نکل سکتے تھے۔ ان کے تو تمام بینک اکاؤنٹس منجمد تھے، تو پھر وہ جہاز میں بیٹھ کے بیلجیئم کیسے پہنچ گئے اور وہاں سے اپنی فخریہ ویڈیوز کیوں بھیج رہے ہیں؟ اس بابت کس کس سے اب تلک باز پرس ہوئی؟ ہوئی تو کس نے کی؟
اور صرف معاویہ اعظم طارق ہی پر کیا موقوف۔ تین ماہ پہلے پنجاب پولیس کی ایک انٹرنل سکیورٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ فورتھ شیڈول کے تحت گھروں پر نظربند 80 شدت پسند احباب غائب ہو چکے ہیں۔ جبکہ انسدادِ دھشت گردی ایکٹ کے تحت قابو میں آنے والے 277 دیگر احباب کہ جن کی نقل و حرکت پر چوبیس گھنٹے نگاہ رکھی جانی مقصود تھی، وہ بھی کب کے اڑن چھو ہو چکے۔اٹھائیس دسمبر کو وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ کالعدم تحریکِ طالبان کےجن سات سے دس ہزار لوگوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے وہ بھی اب دوبارہ متحرک ہو چکے ہیں۔تیس جنوری کو پشاور میں جو 101 انسان قتل ہو گئے اس واقعے کی میڈیائی زندگی بمشکل چار دن کی تھی۔
حکومت نے دھشت گردی کی نئی لہر سے نپٹنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا، پھر یہ کانفرنس دو دن آگے بڑھا دی گئی۔ پھر یہ اعلان ہوا کہ وزیرِ اعظم ترکی جا رہے ہیں زلزلہ متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے۔ ان کی واپسی پر شاید پندرہ یا سولہ فروری کو یہ کانفرنس ہو گی۔ وزیرِ اعظم ترکی سے ہو بھی آئے اور کل جماعتی کانفرنس کا آئیڈیا بھی شاید وہیں کسی عمارت کے ملبے میں دفن کر آئے۔
اب تو یوں لگتا ہے کہ بیس اکیس روز قبل 101 پولیس والے پشاور میں نہیں بلکہ کانگو یا گنی بساؤ میں کسی سڑک کے حادثے میں مرے ہوں گے۔ان حالات میں بائیس کروڑ شہریوں میں سے وہ کون سے بائیس پاکستانی ہاتھ کھڑا کرنا چاہتے ہیں جنہیں امید ہے کہ حکومت یا حکومت سے بھی بالا ادارے جان و مال کے تحفظ یا دھشت گردی کم ترین سطح تک رکھنے کے لیے کوئی تازہ قابلِ عمل متفقہ قومی حکمتِ عملی اپنانے کی صلاحیت یا خواہش رکھتے ہیں؟
اس بابت چالیس فیصد پاکستان کی نمائندہ موجودہ قومی اسمبلی کے ارکان یا پچاسی رکنی وفاقی کابینہ کے عہدے دار ہاتھ اٹھانے سے پرہیز کریں کیونکہ ان کے ہاتھ پہلے ہی سے اٹھے ہوئے ہیں۔پی ٹی آئی کی ’’جیل بھرو تحریک‘‘ کا آغاز بدھ سے ہو رہا ہے تاہم اب عمرانڈو بھی آواز اٹھانا شروع ہو گئے ہیں کہ پارٹی قیادت نے تو حفاظتی ضمانتیں کروا رکھی ہیں پھر ہم کارکنوں کے ہمراہ آخر گرفتاری کون دے گا۔ یا ماضی کی طرح کارکنان کو میدان میں چھوڑ کر قیادت غائب ہو جائے گی۔تاہم پی ٹی آئی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پہلے کارکنان کے ساتھ مقامی قیادت گرفتاریاں پیش کرے گی اور اس کے بعدسینئر قیادت کو سامنے آنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق جیل بھرو تحریک میں جنوبی پنجاب کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنوبی پنجاب کی مقامی قیادت خاص طور پر سینئر قیادت سے اور کارکنان مقامی قیادت سے برگشتہ ہیں۔کارکنان کا خیال ہے کہ پورے چار برس مقامی قیادت نے بھلائے رکھا اور اب جیل بھرو تحریک شروع ہو رہی ہے تو پھر ہم انہیں یاد آنا شروع ہوگئے ہیں جبکہ مقامی قیادت سینئر قیادت پر اعتماد نہیں کر رہی اور اس کا کہنا ہے کہ سینئر قیادت نے اپنے مفادات کو ہمیشہ اولیت دی۔ مقامی قیادت کا کوئی کام نہیں کیا۔ جس وجہ سے وہ کارکنان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔
پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے حوالے سے تجزیہ نگار مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق جیل بھرو تحریک میں وہ جوش وخروش نہیں ہے، جو ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے اہم ذرائع نے بتایا کہ عمران خان، جیل بھرو تحریک کا اعلان تو کر چکے ہیں اور سینئر رہنما اعجاز چوہدری جیل بھرو تحریک کے فوکل پرسن بھی مقرر کیے جا چکے ہیں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک عمران خان مطمئن نہیں ہیں۔ کیونکہ اس حوالے سے کسی قسم کی پلاننگ دکھائی نہیں دے رہی۔ چیئرمین خود زمان پارک تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں اور باقی قیادت اپنی من مرضی پر چل رہی ہے۔
اس وقت دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی عملی قیادت فواد چوہدری جیسے لیڈران کی مرہون منت دکھائی دے رہی ہے۔ یہ چند لوگ فیصلہ کرکے عمران خان کو آگاہ کردیتے ہیں۔ عمران خان کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ اپنی گرفتاری کا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ گرفتار ہوتے ہیں تو کارکنان تو ان کا ساتھ دینے سے گریز نہیں کریں گے، البتہ سینئر قیادت اس وقت اپنے مفادت کے تحت پارٹی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
عمران خان جانتے ہیں کہ اس وقت پارٹی میں کیا ہورہا ہے۔ لاہور سے مقامی قیادت نے گرفتاریاں دینی ہیں، لیکن ابھی تک یہ فائنل نہیں ہوسکا کہ مقامی قیادت میں کون سا لیڈر گرفتاری دینے کے لیے پہل کرے گا۔ اسی طرح جڑواں شہروں پنڈی اور اسلام آباد سے بھی مقامی قیادت کو ہی سامنے لایا جائے گا۔اگرچہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ خود اس کی قیادت کریں گے اور گرفتاری دیں گے۔ لیکن سینئر پارٹی رہنما انہیں اس عمل سے باز رہنے کی تلقین کررہے ہیں۔ جیل بھرو تحریک میں سب سے اہم کردار جنوبی پنجاب کے کارکنان ہیں جو اس وقت مکمل طور پر مقامی اور سینئر قیادت سے نالاں ہیں۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں نے بزدار جیسے نا اہل وزیر اعلیٰ کو بھگتنے کے بعد پرویز الٰہی کو بھگتا جنہوں نے گجرات سے آگے کا سوچا ہی نہیں۔ وہ پہلے ہی تخت لاہور کے خلاف تحریک انصاف کی سپورٹ میں آگے آئے تھے، لیکن پی ٹی آئی کے دور حکمرانی میں ان سے اغماض برتا گیا جس کی وجہ سے اب انہوں نے پی ٹی آئی سے امیدیں چھوڑ رکھی ہیں۔ اس کے باوجود سینئر قیادت کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح جنوبی پنجاب جیل بھرو تحریک میں اپنا حصہ ڈالے ۔
خیبر پختون سے بھی جیل بھرو تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ لیکن ڈیرہ اسماعیل خان سے علی امین گنڈا پور پر بھی مقامی قیاد ت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ کارکنان کے تحفظات بھی شدت اختیار کرچکے ہیں۔ اسی طرح دیگر حلقوں میں بھی کارکنان کا وہ جوش وخروش دکھائی نہیں دے رہا جو ایسی تحریک کے لیے ضروری یوتا ہے۔ اس وقت عمران خان جہاں ایک جانب گرفتار کیے جانے کے خوف میں مبتلا ہیں، وہیں انہیں جیل بھرو تحریک میں بھی ناکامی نظر آ رہی ہے۔ اپنی گرفتاری کے خوف سے ہی عمران خان نے خود کو فی الحال زمان پارک تک محدود رکھا ہوا ہے۔
تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنان یہ بات اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی قیادت ہائی جیک ہونے کے قریب ہے۔ اور عمران خان کو ایسے لوگوں نے گھیر رکھا ہے جو پارٹی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ پرانے کارکنان اور لیڈران ان حالات میں جیل بھرو تحریک کے خلاف ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ایسی تحریک سے پارٹی کی مرکزی قیادت کا تونقصان ہو۔ لیکن مفاد پرست ٹولہ اس سے اپنا ذاتی فائدہ حاصل کر کے اگلی منزل کی طرف چلتا بنے۔