عمران خان کی پونے چار سالہ ناکامیوں کی داستان

عمران خان پاکستانی سیاسی تاریخ کے وہ منفرد حکمران ہیں جن کا پونے چار سالہ دور ناکامیوں سے عبارت رہا
اور بالآخر انہوں نے اپوزیشن کے ہاتھوں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں فراغت سے بچنے کے لیے غیر آئینی اقدام اٹھاتے ہوئے خود ہی قومی اسمبلی توڑ دی حالانکہ وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران کی فراغت کی بنیادی وجہ ان کی نااہلی تھے جس کے نتیجے میں انکی حکومت پاکستانی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ثابت ہوئی۔
لہذا حالات اتنے خراب ہو گے کہ انہیں اپنی کندھوں پر بٹھا کر اقتدار میں لانے والی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنے بوٹ اٹھا کر بھاگنا پڑ گیا۔ 2018 میں پاکستان کا 22واں وزیر اعظم بننے میں مدد دینے والے انکے اتحادیوں نے بھی یہی مناسب جانا کہ اپنی سیاست بچائیں اور عمران سے جان چھڑوا لیں لہذا وہ اپوزیشن سے جا ملے۔ یوں جب اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان کو اپنی چھٹی یقینی نظر آئی تو عمران نے پہلے اپنے پٹھو سپیکر کے ذریعے ووٹنگ منسوخ کروائی اور پھر ایک غیر آئینی قدم اٹھاتے ہوئے قومی اسمبلی ہیں برطرف کردی۔ یوں وہ پاکستانی تاریخ کے ان منفرد وزرائے اعظم میں شامل ہو گے جنہوں نے نہ صرف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ ہونے دی بلکہ غیر آئینی طور پر اسمبلی بھی توڑ دی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران کا پونے چار سال کا دور اقتدار ناکامیوں سے عبارت رہا حالانکہ انہیں لانے والی اسٹیبلشمنٹ کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ بطور کرکٹر عمران خان کو پسندکرنے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پوری اُمید تھی کہ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان اپنے تبدیلی کے وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ عمران نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کرنے، بیرون ملک سے کرپشن کے پیسے واپس لانے، بیرونی قرضوں میں کمی کرنے، آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے اور معاشی ترقی کے ایک نئے آغاز کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم افسوس کہ ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہ ہوسکا اور عمران نے اپنے پورے چار برس کے دوران میں سوائے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیں کے اور کوئی کام نہ کیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران کی حکومت ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہوئی،
جس کے نتیجے میں ملک مہنگائی کے طوفان میں پھنس گیا اور عوام کی چیخیں نکل گئی۔ نہ تو کرپشن میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی چینی یا گندم سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی، اقتدار میں آنے کے بعد عمران حکومت کی توجہ گورننس اور ڈیلیوری سے ہٹ گئی اور غلط ہدف کا پیچھا کیا جاتا رہا جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ پی ٹی آئی کے دور میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ، مہنگائی سے لے کر قرضوں کے حجم میں اضافے تک کئی معاشی چیلنجز شامل تھے جس کے دوران تین بار وزیر خزانہ بھی تبدیل ہوئے، وزیراعظم کے مطابق معاشی حالات بہتر ہو چکے تھے لیکن پھر کرونا کی وبا آئی اور عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ان کے دور میں ریکارڈ نوکریاں پیدا ہوئیں، شماریات کے سروے میں بتایا گیا کہ تین سال کے دوران پچپن لاکھ نوکریاں پیدا ہوئیں یعنی ہر سال اٹھارہ لاکھ نوکریاں پیدا ہوئیں، معاشی ماہرین کی جانب سے بتایا گیا کہ تحریک انصاف حکومت کی معاشی پالیسیاں مجموعی طور پر انتظامی ناکامی اور نا اہلی کا شکار رہیں، بنیادی معاشی عشاریے وہی ہیں جو چالیس سال سے چلے آ رہے ہیں، ان میں کوئی بہتری نہیں ہوئی، تحریک انصاف نے کسی بھی گذشتہ حکومت کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرضے لیے۔ کمزور حکومت میں اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں ناکامی، پنجاب میں عثمان بزدار کا بطور وزیر اعلی انتخاب، جہانگیر ترین اور علیم خان کی ناراضگی، کابینہ اور وفاقی وزرا کے اندرونی اختلافات، اپوزیشن سے محاذ آرائی کے نتیجے میں قانون سازی میں مشکلات ان چند سیاسی معاملات میں شامل ہیں جو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنیں۔
عمران خان کا دور حکومت ان کے اس اعلان سے شروع ہوا جس میں انڈیا، امریکہ سمیت تمام ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے کا اعادہ کیا گیا لیکن ان کے دور حکومت کے اختتام پر امریکہ پر خان حکومت گرانے کی سازش کے الزامات کی گونج ہے، خارجہ محاذ پر اپوزیشن نے عمران خان پر چین، سعودی عرب اور امریکہ سے تعلقات خراب کرنے کا الزام بھی لگایا۔
عمران خان نیازی کی مثال ہٹلر سے مختلف نہیں ہے
اسکے علاوہ عمران کا دور میڈیا پر آمرانہ پابندیوں کی وجہ سے سخت متنازع رہا۔ عمران دور میں نہ صرف مین سٹریم میڈیا بلکہ سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو جھوٹے کیسز، اقدام قتل، جبری گمشدگی اور گرفتاریوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ آزادی اظہار رائے پر پابندی کی خاطر ایسے قوانین متعارف کروانے کی بھی کوشش کی گئی جن پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا، سوشل میڈیا پر پابندی لگانے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی، ایک ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی مخالفت ہوئی اور اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ لیکن بالآخر یہ تمام اقدامات کرنے والے عمران خان کا وقت بھی پورا ہو ہی گیا، یہ اور بات کہ رخصت ہوتے وقت ان کے سر پر ناکامیوں کا ٹوکرا تھا۔
Imran Khan’s story of four and a half years of failures | video