پاکستان میں توانائی کے بحران کا خطرہ ٹل گیا؟

پاکستان کے سابق سفارت کاروں اور خارجہ پالیسی کے مبصرین نے چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کو اہم پیش رفت قرار دیا ہے اور اس کے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔پاکستان کے دونوں ممالک سے دیرینہ تعلقات ہیں ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کی مضبوطی سے پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔مبصرین کا ماننا ہے کہ نئی صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر کام میں تیزی لانی چاہئے۔

اسلام آباد کے ریاض اور تہران کے ساتھ تاریخی اعتبار سے قریبی تعلقات رہے ہیں البتہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان محاذ آرائی نے پاکستان کے لیے خارجہ محاذ پر مشکلات پیدا کیں۔پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ پیش رفت خطے اورا س سے باہر امن و استحکام میں معاون ثابت ہوگی۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس پر مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کے مسلم دنیا اور پاکستان پر دور رس اثرات ہوں گے۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق مندوب ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی اہم سفارتی پیش رفت ہے جو کہ خطے کے لیے گم چینجر ثابت ہوگی۔انہوں نے  کہا کہ گزشتہ سات برس سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی جس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے۔ پاکستان کی کئی دہائیوں سے یہ پالیسی رہی ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں توازن رکھا جا سکے کیوں کہ ریاض اسلام آباد کا اسٹریٹجک شراکت دار ہے جب کہ ایران اس کا اہم پڑوسی ملک ہے۔

ملیحہ لودھی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے ایران کو تنہا کرنے کی پالیسی کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ان کے بقول ایران سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری سے پاکستان کے لیے سفارتی راہ ہموار ہوگی جب کہ اسلام آباد تہران سے اپنے تعلقات کو بڑھا سکے گا جس کے ضرورت بھی ہے۔

عالمی امور خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والی ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کو ایک بے مثال تاریخی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔انہوں نے مزیدکہا کہ مشرقِ وسطیٰ کی تمام تر سیاست ایران اور سعودی عرب کی محاذ آرائی کے گرد گھومتی ہے۔ اگر یہ معاہدہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے مسلم دنیا پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔وہ کہتی ہیں کہ مسلم دنیا میں یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے لیکن پاکستان خراب معاشی صورتِ حال کے سبب مغرب پر انحصار کیے ہوئے ہے، لہذا وہ اس تبدیلی میں محتاط انداز میں آگے بڑھے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور خطے پر اس کے مثبت اثرات ہونے چاہئے البتہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات جنوری 2016 کے آغاز میں اس وقت منقطع ہوئے تھے جب سعودی عرب نے غیر ملکیوں سمیت47 افراد کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں پھانسی دی تھی۔ ان افراد میں شیعہ عالم آیت اللہ باقر النمر بھی شامل تھے۔ ان کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر مظاہرین نے حملہ کیا تھا اور اس سے آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ بعد ازاں ریاض نے تہران سے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ چین کے صدر شی جن پنگ کی کوشش سے ہوا ہے۔ اپنے مشترکہ بیان میں ریاض اور تہران نے اس اقدام پر چین کی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن کو معاہدے کی اطلاعات پر تشویش ہے لیکن یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی کمی کے لیے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔مبصرین سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی میں چین کے ثالثی کے کردار کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے بیجنگ کا امن کے لیے عالمی کردار سامنے آ رہا ہے۔

ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر سعودی عرب کی ناراضی اور مغرب کی پابندیوں کے سبب پیش رفت نہیں ہو سکی اور اب اسلام آباد کو اپنی توانائی کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اس پر توجہ دینی چاہیے۔

اس حوالے سے ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں ایران سب سے بہتر اور آسان ذریعہ ہے لیکن ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر اسلام آباد کی طرف سے کوتاہی برتی گئی۔انہوں نے کہا کہ یہ آسان راستہ نہیں ہوگا۔ مغرب اور امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کیوں کہ واشنگٹن کی نظر میں اسلام آباد کی پہلے جیسی اہمیت نہیں رہی۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے مالی تعاون بھی درکار ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب خود کو اب ایک لبرل اسٹیٹ کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ اس کے ایران سے تعلقات کی بہتری کے بعد پاکستان میں مذہبی گروہوں کو دونوں ملکوں سے ملنے والی مالی مدد میں کمی ہو سکتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ جب مالی امداد بند ہوجائے گی تو پاکستان میں فرقہ واریت میں بھی کمی آئے گی کیوں کہ جب کسی ریاست کی پالیسی بدلتی ہے تو اس کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔

لڑکی کو آٹوگراف نہ دینے پر دھانی افسردہ ہوگئے

Related Articles

Back to top button