پاکستان کے سیاسی بحران میں بھارتی کس کے ساتھ ہیں؟

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنی یقینی شکست کا سامنا کرنے کی بجائے قومی اسمبلی توڑنے کے بعد شروع ہونے والا سیاسی میچ بھارت میں بھی بڑی توجہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال انڈیا میں بھی خبروں اور بحث و مباحثوں کا موضوع بنی ہوئی ہے
۔
انڈیا کے بیشتر چینلوں پر بیٹھے تجزیہ کار یہ توقع کر رہے تھے کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کی صورت میں عمران کی حکومت گر جائے گی اور اپوزیشن نئی حکومت بنائے گی۔ ظاہر ہے پاکستان میں بھی زیادہ تجزیہ کار اسی توقع کا اظہار کر رہے تھے، لیکن پھر یوں ہوا کہ عمران خان نے اپنی انا کی خاطر آئین شکنی کا فیصلہ کیا اور تحریک عدم اعتماد مسترد کروانے کے بعد قومی اسمبلی توڑ دی۔ یوں سب تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے اور فوجی کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے عمران نے پہلا سویلین ڈکٹیٹر بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
انڈیا میں پاکستان کی سیاسی صورتحال کی لمحہ بہ لمحہ خبر ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائی جا رہی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک مسترد ہونے اور قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کی خبر ملک کے سبھی چینلوں اور اخبارات کی شہ سرخی تھی۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت شروع ہوتے ہی سبھی چینلوں نے اسلام آباد سے موصول ہونے والی خبریں نشر کرنی شروع کر دی تھیں۔
یاد رہے کہ عمران خان ان چند پاکستانی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں انڈیا میں عمومی طور پر مقبولیت حاصل ہے یا کم از کم انھیں انڈیا سے رشتوں کے معاملے میں اتنا سخت گیر نہیں سمجھا جاتا تھا جتنا دوسرے پاکستانی رہنماؤں کو۔ لیکن ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد انڈیا کا رویہ ان کے تئیں کافی حد تک سرد مہری کا رہا ہے حالانکہ عمران خان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے مقبوضہ جموں کشمیر پلیٹ میں رکھ کر مودی سرکار کو پیش کر دیا۔ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کی مدت میں مکمل سرد مہری کا شکار رہے۔
کیونکہ پاکستانی سیاست بھٹو اور شریف خاندانوں کے گرد گھومتی ہے اس لئے بھارت میں زیادہ تر تجزیہ کار عمران کو ایک سیاسی بلبلہ قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو عمران کی جگہ اپوزیشن کی حکومت آنے کی امید تھی۔ لیکن عمران نے قومی اسمبلی تحلیل کر کے الٹا چھکا مارا جو وکٹوں کے پیچھے باؤنڈری سے باہر چلا گیا۔ تاہم پاکستان کی طرح بھارت میں بھی اب یہ امید کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ عمران سرکار کے تمام غیر آئینی فیصلوں کو مسترد کر دے گی اور عدم اعتماد کی ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دے گی۔ یوں اپوزیشن کی حکومت قائم ہونے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی بحران پر انڈیا میں جذبات بارے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی بات کی جسے انڈین میڈیا نے بھی رپورٹ کیا ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے پر شیخ رشید نے کہا کہ انڈیا میں صف ماتم بچھ چکی ہے۔ انڈیا کے 72 چینل ماتم کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد سب سے زیادہ مایوسی انڈیا میں آئی ہے۔’
اب سوال یہ ہے کہ کیا شیخ رشید کی بات درست ہے؟ اس سوال کے جواب میں معروف ہندی نیوز ویب سائٹ لوک مت کے ایڈیٹر رنگناتھ سنگھ نے کہا کہ پاکستان کی صورت حال انڈین الیکٹرانک میڈیا کے لیے کسی تھرِلر سے کم نہیں جبکہ پرنٹ میڈیا کے لیے ہمارے حساس پڑوس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
انکے مطابق ‘بظاہر ایسا نظر آ رہا ہے کہ عمران خان پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کی جانب لے جا رہے ہیں جو کہ انڈیا کے حق میں نہیں ہے کیونکہ وہاں سے ایسے غیر سرکاری عناصر سر ابھارتے ہیں جو کہ انڈیا کے خلاف کام کرتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ‘عمران خان کی جانب سے تھیوکریٹک پاکستان کے آئیڈیا کے ساتھ طویل اور مسلسل چھیڑ چھاڑ کی تاریخ رہی ہے اور کشمیر کے نام نہاد کاز کے ساتھ ان کا جنون بھی انڈیا کے لیے پریشانی کا باعث رہا ہے۔
عمران خان کی پونے چار سالہ ناکامیوں کی داستان
یہ کئی برسوں میں پہلا موقع ہے جب انڈیا میں پاکستان کی سیاست کو اتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ دلچسپی ٹی وی چینلوں پر دکھائی دیتی ہے جن پر کئی روایتی تبصرہ کار پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کو پاکستان میں جمہوریت کے فقدان اور سیاست میں فوج کی مداخلت جیسے پہلوؤں سے منسوب کرتے ہیں۔ بہت سے دوسرے تجزیہ کار یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کی فضا عمران خان کے خلاف کیوں ہو گئی۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ اب کیا ہوگا؟
Who are the Indians with in Pakistan’s political crisis? | video