گولی کے استعمال سے سیاسی مسائل حل کیوں نہیں ہونے والے؟

 

 

 

معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ سیاست میں گالی دینے والا خود ایک گالی بن جاتا ہے جبکہ گولی استعمال کرنیوالا خود گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ لہذا گالی اور گولی کی سیاست سے پرہیز کرنا چاہیئے چونکہ ان سے سیاسی مسائل حل نہیں ہوتے۔

 

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ پشاور میں حیات آباد کے نام سے ایک بہت بڑا علاقہ ہے۔ حیات آباد ہمیں پیپلز پارٹی کے رہنما حیات خان شیر پاؤ کی یاد دلاتا ہے جو صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر رہے۔ انہیں 8 فروری 1975 کو پشاور یونیورسٹی میں ایک بم دھماکے میں شہید کیا گیا۔ شیرپاؤ کی شہادت کو نصف صدی گزر چکی اور اب کسی کو یاد نہیں کہ انہیں قتل کرنے کا منصوبہ کابل میں بنایا گیا تھا۔ شیر پاؤ کے قتل کے بعد ہی نیشنل عوامی پارٹی یعنی نیپ پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس قتل کی منصوبہ بندی کا الزام تب کے اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خان کے صاحبزادے اسفند یار ولی پر لگایا گیا۔ اس کارروائی میں چارسدہ کے دو نوجوان انور اور امجد شامل تھے جنکا تعلق پختون زلمے نامی تنظیم سے تھا جسے نیپ کے رہنما اجمل خٹک کابل سے چلا رہے تھے۔

 

اجمل خٹک 1973 میں اپنے ساتھیوں کیساتھ افغانستان چلے گئے تھے جہاں انہوں نے پختون زلمے نامی تنظیم بنائی اور شیر پاؤ کے قتل کا منصوبہ تیار کیا۔ اس کے کارکنوں کو کابل میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی تھی۔ حیات خان شہرپاؤ کے دونوں قاتل اپنی کارروائی مکمل کر کے واپس کابل پہنچ گئے۔ کابل میں صرف پختون اور بلوچ رہنماؤں کو نہیں بلکہ سندھو دیش کے حامیوں کو بھی پناہ دی گئی تھی جنکو کابل میں بھارت کے سفارتخانے سے پیسے ملتے تھے۔ حیات خان شیرپاؤ کا قتل ایک طرف تو ہمیں پاکستان کی سیاست میں نفرت اور انتقام کے رجحانات کی وجوہ پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی بتاتا ہے کہ افغانستان اور بھارت آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں دہشت گردی کروارہے ہیں۔ عام طور پر اس مقصد کیلئے ان پاکستانیوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو ریاست سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جب حیات خان شیرپاؤ قتل ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ چند سال کے بعد جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ اس پھانسی نے جس نفرت اور انتقام کو جنم دیا اُس نے میر مرتضی بھٹو کو کابل پہنچا دیا۔ جب اس نے 1981 میں پی آئی اے کے ایک ہوائی جہاز کے اغواء کی ذمہ داری قبول کی۔ اس دور میں اجمل خٹک اور میر مرتضی بھٹو دونوں کابل میں موجود تھے۔

 

حامد میر کے بقول بہت سال انہوں نے روزنامہ جنگ کیلئے اجمل خٹک کا انٹرویو کیا تو انہوں نے یہ شک ظاہر کیا کہ پی آئی اے کا ہوائی جہاز خود ضیا مارشل لاء جنتا نے اغواء کروایا تھا تا کہ مرتضی بھٹو پر ہائی جیکنگ کی ذمہ داری ڈال کر پیپلزپارٹی کیخلاف کریک ڈاؤن کیا جائے جو دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ ملکر بحالی جمہوریت کی تحریک چلا رہی تھی۔ اس ہائی جیکنگ کا مرکزی کردار سلام الله ٹیپو تھا جس نے بعد میں جنرل ضیاء کو 1982 میں دورہ بھارت کے دوران دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر حاضری کے دوران قتل کرنیکا منصوبہ بنایا۔ منصوبے پر عمل درآمد کیلئے ٹیپو کو ہینڈ گرنیڈ اور کلاشنکوف مہیا کرنا اسکے ایک ساتھی پرویز شنواری کی ذمہ داری تھی جو یہ کام نہ کرسکا۔

 

چنانچہ حامد میر بتاتے ہیں کہ سلام اللہ ٹیپو واپس کابل آیا اور شنواری کو قتل کر دیا۔ شنواری کے قتل کے الزام میں افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے حکم پر سلام الله ٹیپو کو کابل میں گولی مار دی گئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ میر مرتضی بھٹو کو شک تھا کہ سلام اللہ ٹیپو پاکستانی خفیہ اداروں کیلئے کام کرتا تھا اسی لئے اُس نے دہلی میں جنرل ضیاء کو قتل نہیں ہونے دیا، لہٰذا مرتضیٰ کے ایما پر ٹیپو کو گولی ماری گئی۔ بہرحال پی آئی اے کا جہاز اغواء کرنیوالے ٹیپو کو پاکستانی حکومت تو سزا نہیں دے سکی لیکن افغان حکومت نے اس کو پار کر دیا۔

 

سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے ملک کی ملی بھگت سے اپنے ملک کیخلاف دہشت گردی کرنیوالے اکثر نوجوانوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو سلام اللہ ٹیپو کا ہوا۔ ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ سلام اللہ ٹیپو کراچی یونیورسٹی سے کابل کیسے پہنچا؟ اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو اُنکا بیٹا میر مرتضی بھٹو وہ کام نہ کرتا جو اجمل خٹک کابل میں بیٹھ کر پہلے سے کر رہے تھے۔ ان کے مطابق افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ ہم نے پاکستان کی سیاست سے گالی اور گولی کو ختم کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گولی سے سیاسی مسئلے حل نہیں ہوتے۔

 

گزشتہ سال نومبر میں اسلام آباد میں گولی چلی۔ ریاست نے کہا کہ ہم نے حکومتی رٹ قائم کی۔ اب مرید کے میں تحریک لبیک کے دھرنے پر گولی چلائی گئی ہے۔ ریاست کے پاس گولی چلانے کی وہی وجوہات ہیں جو کہ ماضی میں بھی بتائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ گولی سے نفرت اور انتقام جنم لیتا ہے اور پاکستانی نوجوانوں کو کابل کا راستہ دکھاتا ہے جہاں انڈیا انہیں پاکستان کیخلاف استعمال کرتا ہے۔  حامد میر کہتے ہیں کہ اب ایک نوجوان خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ بن گیا ہے۔ اس کے لب و لہجے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اُسے کابل کی پراکسی قرار دنیا بہت سے نوجوانوں کو کابل کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ آپ اپنے لوگوں کیساتھ گالی اور گولی کی زبان میں بات کرنا بند کر دیں تو وہ کابل کیوں جائینگے؟ کابل کا راستہ بند کرنے کیلئے آپکو اپنے لوگوں کیساتھ مفاہمت کا راستہ اپنانا ہوگا۔

 

 

Back to top button