پاکستانی میڈیا ڈیپ سٹیٹ کا مرکزی ہدف بن گیا

صحافیوں کے تحفظ اور میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری عالمی ادارے ‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’ نے سال 2021 کے لیے صحافتی آزادیوں کی درجہ بندی سے متعلق رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا فوجی اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ پر مبنی ڈیپ سٹیٹ کا مرکزی ہدف بن چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی صورتحال بدستور تشویشناک ہے اور دنیا کے 200 ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر پچھلے سال کی طرح اس برس بھی 145 واں ہے۔
‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’ کی تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2018 میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا اثرورسوخ ڈرامائی انداز میں بڑھا ہے۔ پاکستان میں میڈیا پر کھلی سنسر شپ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اور ملک کے طاقتور ترین اداروں کی طرف سے دباو ڈالنے کے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے کا سویلین حکام پر بھی کنٹرول واضح حد تک بڑھا ہے۔ پاکستان کا میڈیا جو متحرک ہونے کی روایت رکھتا ہے، ‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’کی رپورٹ کے مطابق، اب ملک کی ’ڈیپ سٹیٹ‘ کا ترجیحی ہدف بن گیا ہے۔
‘رپورٹر ود آوٹ بارڈر’ کی رپورٹ کے مطابق، اخبارات کی ترسیل بالخصوص روزنامہ ڈان کی ترسیل میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ میڈیا اداروں کو اشتہارات کی بندش کا کہہ کر دھمکایا گیا ہے۔ ایسے ٹیلی وژن چینلز جو حزب اختلاف کو اپنا ائیر ٹائم دیتے ہیں ان کی نشریات کو جام کیا گیا ہے۔ ایسے صحافی جنہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے متعین کی گئی حدود کی خلاف ورزی کی، انہیں ہراسانی کی مہم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، "کئی صحافیوں کو سال 2020 میں اغوا کیا گیا تاکہ انہیں پیغام دیا جا سکے کہ ایسی سٹوریز فائل نہ کرو جو ناپسندیدہ ہوں ورنہ آپ کا خاندان آپ کو سلامت نہیں دیکھ سکے گا”۔
بین الاقوامی صحافتی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں مرکزی دھارے کے روایتی میڈیا کو قابو کرنے کے بعد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھی ایسے مواد پر کنٹرول کی تیاری کی جا رہی ہے جو با اختیار اداروں کی پسند کے خلاف ہے۔ اس مقصد کے لیے رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کے بقول،حکومت آن لائن ریگولیشن لانے کی تیاری کر رہی ہے جس کا مقصد واضح طور پر سنسرشپ ہی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا سے متعلقہ صحافیوں کو بھی شدید دباؤ اور دم کیوں کا سامنا ہے۔ ‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈر’ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جو ایک نیا رجحان سامنے آرہا ہے وہ ہے سائبر ہراسمنٹ، یعنی انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے کا۔ رپورٹ کے مطابق اس طریقے سے صحافیوں بالخصوص خواتین کی ٹرولنگ کی مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں رپورٹروں کو بدستور فیلڈ میں خطرات کا سامنا ہے جہاں وہ سکیورٹی فورسز اور مسلح باغیوں کے درمیان لڑائی کا ہدف بن جاتے ہیں۔ سال 2020 میں چار صحافیوں کو اپنی صحافتی خدمات کی انجام دہی کے دوران ہلاک کر دیا گیا، بالخصوص ان حالات میں، جبکہ وہ بدعنوانی یا منشیات کی سمگلنگ کے خلاف تحقیقاتی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا شدید دبائو میں یے اور آزادی صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ جس روز یہ رپورٹ جاری ہوئی اسی شام کو اسلام آباد میں سینئر صحافی ابصار عالم کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔
‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈر’ کے سالانہ انڈیکس میں دنیا کے باقی خطوں اور ممالک میں بھی صحافتی آزادیوں اور صحافیوں کے لیے مشکلات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بھارت کا شمار بھی رپورٹر ود آوٹ بارڈر کے انڈیکس میں ایسے ممالک میں کیا گیا ہے جو صحافیوں کے لیے خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ 2020 کے دوران بھارت میں چار صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نریندر مودی کے سال 2019 میں انتخاب کے بعد صحافیوں کے خلاف پولیس، سیاسی کارکنوں کی جانب سے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب وزیراعظم کی بھارتیہ جنتا پارٹی کا دباؤ بھی صحافیوں پر بڑھا ہے کہ وہ ہندو قوم پرست نظریے کا پرچار کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button