جبری گمشدگیوں میں ریاست ملوث ہو تو انصاف کون دے گا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر شہریوں کی جبری گمشدگیوں میں ریاست خود ملوث ہو گی تو انصاف کون دے گا؟ انھوں نے کہا کہ عدالت، وکیل، صحافی یا کوئی اور، اِن مقدمات کی تفتیش نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے سخت لہجے میں ریمارکس دیے کہ ریاست یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس جبری طور پر گمشدہ ہونے والوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے علاوہ وزیر اعظم آفس اور حساس اداروں کے دفاتر بھی اسلام آباد میں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں سے شہری اغوا کیے جارہے ہیں اور ان کے بارے میں کچھ بتایا بھی نہیں جا رہا۔ انھوں نے کہا کہ مسنگ پرسنز کی فیملیز یہاں پھر رہی ہیں، ان کے پیاروں کو کون اغوا کر رہا ہے، اس معاملے پر حکومت اور وفاقی کابینہ جوابدہ ہے۔
18 جنوری کے روز صحافی اور بلاگر مدثر نارو اور اسلام آباد یونیورسٹی کے دو طلبہ کی جبری گمشدگی کے کیسز کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث وہ ایسا وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتے۔
ان مقدمات میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت جبری گمشدگیوں کے معاملات کو بڑی سنجیدگی سے لے رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کوئی مثال دیں جس سے ظاہر ہو کہ حکومت اس حوالے سے بڑی سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گذشتہ برس سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایک اہلکار ساجد محمود کو بھی اٹھایا گیا تھا اور بعدازاں جب وہ بازیاب ہو گئے تو انھوں نے کہا کہ وہ تو سیر و تفریح کے لیے شمالی علاقہ جات گئے تھے، جبکہ حالات اس کے بالکل مختلف ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئین موجود ہے اور آئین کے مطابق فوج اور سکیورٹی کے دیگر ادارے بھی اسی آئین کے پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کے واقعات ناقابل برداشت ہیں اور وفاقی حکومت کو یہ سلسلہ ختم کروانے کے لیے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
ریلوے ٹریک پر دھماکا، جعفر ایکسپریس پٹری سے اتر گئی
انھوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پر کیا کہیں گے؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ انھوں نے کہا کہ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اگر یہ نشاندہی ہو جائے کہ کوئی ادارہ اس میں ملوث ہے اور چیف ایگزیکٹیو کوئی ایکشن نہ لے تو وہ جوابدہ ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں سابق چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف کا نام لیے بغیر کہا کہ ملک کے ایک سابق چیف ایگزیکٹیو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا، اُن کی پالیسی تھی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے سابق فوجی صدر کو ’غاصب‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں منتخب چیف ایگزیکٹیوز کے ساتھ نہ ملایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ سابق فوجی صدر اب مفرور ہیں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ان کے لیے یہ کہنا آسان ہے کہ جس دور میں گمشدگیاں ہوئی ہیں، اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو کو ذمہ دار ٹھہرائیں، لیکن وہ ایسا نہیں کہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ بہت سے لوگ اب بھی حراستی مراکز میں رکھے گئے، اس پر کیا کہیں گے؟
اس پر اٹارنی جنرل نے ان حراستی مراکز میں رکھے گئے افراد کا ذکر تو نہیں کیا البتہ انھوں نے اسی پر ہی اکتفا کیا کہ حراستی مراکز سے متعلق ایک قانون بنا تھا اور وہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت صرف خیبرپختونخوا میں فوج کے 16 حراستی مراکز ہیں جہاں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے آٹھ ہزار سے زائد افراد کو رکھا گیا ہے اور متعلقہ حکام اس حقیقت کو تسلیم بھی کر چکے ہیں۔
اس موقع پر لاپتہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں لاپتہ افراد کے 8279 کیسز ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟ انھوں نے کہا کہ اس عدالت کی حدود سے ایک شخص کو اٹھایا گیا اور اس کی تحقیقات میں کچھ نہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایسی بات پر تو ریاست کو ہل جانا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دستیاب ہیں، اس معاملے پر کیا ہوا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس واقعے کی تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ صحافی اور بلاگر مدثر نارو کے بارے میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کے والدین اور فیملی کی وزیر اعظم سے ملاقات کروائی گئی لیکن اس کی بازیابی کے بارے میں ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو تین ہفتوں کی مہلت دی ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔