شام : 2 روزہ جھڑپوں اور قتل عام سے اموات ایک ہزار سے تجاوز

شام کی سیکیورٹی فورسز اور معزول صدر بشار الاسد کے وفاداروں کےدرمیان 2 دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں اور اس کےبعد ہونےوالے انتقامی قتل عام میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سےتجاوز کر گئی ہے، جن میں 750 شہری شامل ہیں۔
عرب نیوز کےمطابق برطانیہ میں قائم شامی مبصرگروپ برائے انسانی حقوق نےکہا کہ 745 شہریوں میں سے زیادہ تر قتل عام کا نشانہ بنےجبکہ سیکیورٹی فورس کے 125 ارکان اور بشار الاسد کے حامی 148 عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے۔
مبصر گروپ کےمطابق شہر لاذقیہ کے اطراف بڑے علاقوں میں بجلی اور پینے کے پانی کی فراہمی منقطع کر دی گئی ہے، اسدحکومت کےخاتمےکے 3 ماہ بعد شروع ہونے والی ان جھڑپوں کودمشق میں وجود میں آنے والی نئی حکومت کے لیے بڑامسئلہ قراردیا جارہا ہے،حکومت نے کہا ہے کہ وہ بشار الاسد کی فوج کی باقیات کی طرف سے کیے گئے حملوں کا جواب دے رہی تھی، حکومت نےبےقابو تشدد کو ”انفرادی کارروائیوں“ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
جمعے کےروزحکومت کے وفادار سنی مسلمانوں کی جانب سے بشار الاسد کےاقلیتی علوی فرقے کے ارکان کے خلاف شروع ہونےوالی انتقامی ہلاکتیں ہئیت تحریر الشام کے لیے بڑا دھچکا ہیں،جس نے سابق حکومت کا تختہ الٹنے کی قیادت کی تھی،علویوں نےکئی دہائیوں تک بشارالاسد کی حمایت کا ایک بڑا حصہ بنایا۔
علویوں کے دیہات اورقصبوں کے رہائشیوں نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مسلح افراد نے علویوں، جن میں اکثریت مردوں کی تھی، کو سڑکوں پر یا ان کےگھروں کےدروازوں پر گولی مار دی۔
شام کےساحلی علاقے کے دو رہائشیوں نےاے پی کو بتایا کہ مختلف علاقوں میں علویوں کے بہت سےگھروں کو لوٹ لیا گیا اور پھرمختلف علاقوں میں آگ لگا دی گئی۔
غزہ جنگ : اسرائیل کامذاکرات کے دوسرے مرحلے کیلئے وفد قطر بھیجنے کا فیصلہ
انہوں نےکہا کہ انہیں مسلح افراد کے ہاتھوں مارے جانے کا خدشہ ہے لہٰذا ان کے نام ظاہر نہ کیے جائیں ، انہوں نے مزید کہا کہ ہزاروں افراد جان بچانے کے لیے قریبی پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے ہیں۔
تشدد سےسب سےزیادہ متاثرہ قصبوں میں سے ایک بنیاس کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ لاشیں سڑکوں پر بکھری پڑی ہیں یا بے گیرو کفن گھروں اور عمارتوں کی چھتوں پربکھری ہوئی ہیں۔
بنیاس کےرہائشی 57 سالہ علی شیحہ، جو جمعے کے روز تشدد شروع ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد اپنے اہل خانہ اور پڑوسیوں کے ساتھ فرار ہو گئے تھے، نے کہا کہ بنیاس کے ایک محلے میں جہاں علوی رہتے تھے، ان کے کم از کم 20 پڑوسی اور ساتھی مارے گئے، ان میں سے کچھ اپنی دکانوں میں یا اپنے گھروں میں تھے۔ شیحہ نے ان حملوں کو اسد حکومت کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کا بدلہ لینے کے لیے علوی اقلیت کا ’انتقامی قتل‘ قرار دیا۔ دیگر رہائشیوں نے بتایا کہ مسلح افراد میں غیر ملکی جنگجو اور آس پاس کے دیہات اور قصبوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند شامل ہیں۔
شامی مبصرگروپ کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے کہا کہ انتقامی کارروائیاں ہفتے کی علی الصبح رک گئیں، عبدالرحمٰن نے علوی شہریوں کے قتل عام کےبارے میں کہا کہ یہ شام کےتنازع کے دوران سب سے بڑے قتل عام میں سے ایک تھا۔
مبصرگروپ نے اس سے قبل 200 سے زیادہ ہلاکتیں رپورٹ کی تھیں تاہم کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے تھے۔
شام کےساحل پر ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے شامی سیکیورٹی فورسز کے4 اہلکاروں کی آخری رسومات ہفتے کی سہ پہر شمال مغربی گاؤں الجنودیہ میں ادا کی گئیں۔ جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے وزارت دفاع کے ایک نامعلوم عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ سرکاری فورسز نے بشار الاسد کے حامیوں سے زیادہ تر علاقوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکام نے ساحلی علاقے کی طرف جانے والے تمام راستوں کو خلاف ورزیاں روکنےاورامن و امان کی بتدریج بحالی کے لیے بند کر دیا ہے۔
مقامی لوگوں نےبتایا کہ ہفتےکی صبح وسطی گاؤں تویم میں انتقامی حملوں میں ہلاک ہونے والے 31 افراد کی لاشوں کو اجتماعی قبر میں سپرد خاک کردیا گیا ہے، ہلاک ہونےوالوں میں 9 بچے اور 4 خواتین بھی شامل ہیں، انہوں نے اے پی کو سفید کپڑے میں لپٹی لاشوں کی تصاویر بھیجی ہیں۔