کیا تحریک انصاف کا خیبرپختونخوا سے بھی صفایا ہونے والا ہے؟

ملک میں آئندہ برس آٹھ فروری کو عام انتخابات کے اعلان کے بعد مرکز میں نئی سیاسی صف بندیوں کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی سیاسی ماحول گرم ہو رہا ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں نے جلسوں کا آغاز کر دیا ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10 برسوں سے خیبرپختونخوا کی سیاست پی ٹی آئی کے اردگرد گھومتی رہی ہے۔ 2013 میں پارٹی پہلی مرتبہ صوبے میں اقتدار میں آئی تھی جب کہ 2018 کے انتخابات میں اسے دو تہائی اکثریت ملی تھی۔لیکن نو مئی کے واقعات کے بعد سابق وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک، محمود خان اور اُن کے حامیوں کی جانب سے پارٹی چھوڑنے اور پی ٹی آئی (پارلیمینٹرینز) کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنانے کے بعد صوبے کی سیاست میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ گو کہ صوبے میں پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لیکن اس کا ووٹ بینک تاحال موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی اتحاد بنانے کو ترجیح دیں گی۔
زیادہ تر تجزیہ کار فروری 2024 کے عام انتخابات میں صوبے میں منقسم مینڈیٹ کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔پشاور کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان خان کہتے ہیں کہ اگر انتخابات میں پی ٹی آئی بلے کے نشان کے ساتھ میدان میں اُتری تو دیگر جماعتوں کے لیے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے دوسری جماعت سے اتحاد کا اعلان نہیں کیا، لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان انتخابی اتحاد ہو سکتا ہے۔اُن کے بقول اگر ایسا ہوا تو پھر اس اتحاد کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی بہت سے حلقوں میں مشترکہ امیدوار میدان میں اُتار دیں گے۔
دوسری جانب سینئر صحافی شاہد حمید کہتے ہیں کہ مشکلات اور پارٹی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود پی ٹی آئی کا ووٹ بینک برقرار ہے جو دیگر سیاسی جماعت کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اے این پی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی زیادہ نشسوں پر اُمیدوار نامزد کر دیے ہیں اور انتخابی مہم بھی شروع کر دی ہے۔اُن کے بقول اگر اے این پی اور پیپلزپارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد ہو گیا تو پھر ان اُمیدواروں کو دستبردار کیا جا سکتا ہے۔عرفان خان کے بقول اس وقت جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اے این پی کے درمیان صوبائی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ نشستوں کے حصول کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ مقتدر حلقے سابق وزرائے اعلٰی پرویز خٹک اور محمود خان کی حمایت کر رہے ہیں اور یہ دونوں وزارتِ اعلٰی کے اُمیدوار بھی ہیں۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر امیر مقام اور سیف اللہ خاندان بھی وزارتِ اعلٰی کی دوڑ میں شامل ہیں۔
سینئر صحافی فرید اللہ خان کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں اہم کردار ادا کرنے والی جے یو آئی (ف) کو پی ٹی آئی کے ووٹرز کے ردِعمل کا سامنا ہو گا۔
دوسری جانب نگراں کابینہ اور گورنر کی تعیناتی کے معاملے پر بھی جے یو آئی (ف) کے بعض رہنما ناراض ہیں جس کا لامحالہ اثر انتخابات پر بھی پڑے گا۔اُن کے بقول جمعیت علمائے اسلام (ف) خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ایک مؤثر اور مقبول جماعت ہے مگر مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن اور پشاور میں اسے مشکلات کا سامنا ہے۔
فرید اللہ خان کے مطابق صوبے میں مسلم لیگ (ن) کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ہزارہ ڈویژن پاکستان مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ مگر یہاں پر پارٹی دو واضح گروپوں میں تقسیم ہے۔اُن کے بقول دو سابق وزرائے اعلی سردار مہتاب احمد خان اور صاحبزادہ پیر صابر شاہ کسی بھی طور پر انجینئر امیر مقام کی قیادت میں سیاسی سفر جاری رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عرفان خان کہتے ہیں کہ گزشتہ 10 برسوں میں پی ٹی آئی حکومت کے سامنے صرف اے این پی ہی ہر محاذ پر ڈٹی رہی ہے اور صوبے میں اس کی پوزیشن بظاہر بہتر دکھائی دیتی ہے۔لیکن اُن کے بقول سوات اور پشاور میں اس کے اہم افراد ناراض ہو کر دیگر جماعتوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ لیکن خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں پارٹی منظم ہوئی ہے اور اس کا کارکن بھی متحرک ہے۔اُن کے بقول اے این پی، پی ٹی آئی یا پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد میں جا سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع بھی خیبر پختونخوا کی سیاست میں اہم کردار ادا کریں گے، مگر ان تمام سات اضلاع کا سیاسی ماحول ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ صوبے میں جو جماعت بھی اقتدار میں آئی اس کے لیے امن و امان ہی ہمیشہ کی طرح ایک بڑا چیلنج ہو گا۔