سینئر صحافی ابصار عالم پر حملہ کرنے والے کرائے کے قاتل گرفتار

سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے دور حکومت میں اسلام آباد میں گولیوں کا نشانہ بننے والے سینئیر صحافی ابصار عالم کے حملہ آور بالآخر گرفتار ہو گئے ہیں جنہوں نے نہ صرف انہیں قتل کرنے کی کوشش کا اعتراف کیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ انہیں ایک اور صحافی اسد علی طور کو بھی قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا لیکن ابصار کے زندہ بچ جانے کی وجہ سے انکا پلان تبدیل کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ اسد طور کو بھی اسلام آباد میں ان کے فلیٹ کے اندر گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ابصار اور طور پر ہونے والے حملوں کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی موجود تھیں لیکن اس کے باوجود حملہ آور گرفتار نہیں ہو سکے تھے کیونکہ تب قاتل ہی منصف تھا۔ یہ دونوں صحافی تب کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ناقد تھے۔
دیوار سےلگایا گیا تو سب بول دوں گا
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ابصار عالم پر حملہ روایتی ایجنسی سٹائل میں کیا گیا تاکہ تفتیش کار حملہ آوروں تک نہ پہنچ پائیں۔ چنانچہ اس حملے کی ہدایت جرمنی سے دلوائی گئیں، واردات ڈالنے کے لیے شیخوپورہ کے ایک شخص کو ذمہ داری سونپی گئی جس نے خوشاب سے ایک کرائے کا قاتل حاصل کیا جبکہ ابصار کو ٹارگٹ کرنے کیلئے رقم کی ادائیگی راولپنڈی اور لاہور میں کی گئی۔
ماضی میں خود ایجنسیوں کے تشدد کا نشانہ بننے والے سینئر صحافی عمر چیمہ نے انکشاف کیا ہے کہ ابصار عالم پر حملے کا منصوبہ فروری 2021 میں بننا شروع ہوا جبکہ حملہ اپریل 2021 میں کیا گیا۔ اسد طور پر تشدد مئی 2021 میں کیا گیا۔ پولیس تحقیقات کے مطابق ابصار عالم پر حملے کا سارا منصوبہ 32؍ سالہ زین غیاث نے ترتیب دیا جو کہ ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس نے گولی مارنے کے لیے شوٹر بھرتی کرنے کی ذمہ داری 23؍ سالہ حماد سلیمان کو سونپی تھی۔ زین غیاث اپنے آبائی ضلع گجرات میں اشتہاری ہے اور جرمنی جا چکا ہے۔ اس نے یونان میں مقیم اپنے کزن شاہنواز نے ذریعے حماد سلیمان سے رابطہ کیا۔ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والا حماد پولیس میں دو سال تک وائرلیس آپریٹر رہا تھا جسے بعد میں نکال دیا گیا۔ ابصار عالم کو گولیاں مارنے والے کرائے کے شوٹر ندیم اصغر کو خوشاب سے حاصل کیا گیا۔ مجموعی طور پر اس واقعے میں 8؍ لوگ ملوث ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ابصار عالم پر قاتلانہ حملے میں ملوث نیٹ ورک کا خوش قسمتی سے تب پتہ چلا جب حماد سلیمان کو فروری 2022 میں شیخو پورہ پولیس نے ایک ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کیا۔ تحقیقات کے دوران، پولیس کو مخبروں سے پتہ چلا کہ حماد اسلام آباد کے صحافیوں پر حملوں میں بھی ملوث رہا ہے۔ تفتیش کے دوران اس نے چھوٹے پیمانے پر منشیات کے دھندے میں ملوث ہونے کا بھی اعتراف کیا۔ تفتیش کاروں نے بتایا ہے کہ ابصار اور اسد پر حملے کیلئے ریکی، یعنی چہروں کی شناخت، گھروں کی تصاویر لینا اور ان کی معمول کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا کام حماد کی قیادت میں ایک مقامی ٹیم نے کیا۔ بعد میں حماد نے ندیم اصغر کو خوشاب سے کرائے پر حاصل کیا جس نے ابصار عالم کو اسلام آباد کے ایک پارک میں گولی ماری تاہم وہ معجزانہ طور پر زخمی ہونے کے باوجود زندہ بچ گئے۔ حماد نے پولیس کو بتایا کہ وہ کئی ہفتوں تک ابصار کے گھر کی نگرانی کرتے رہے لیکن ابصار گھر سے بہت کم باہر نکلتے تھے۔ اسی دوران انہیں اسد طور اور ان کے اتے پتے کی ریکی کا کہا گیا۔
گرفتار ہونے والے ملزمان نے تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ ابصار کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے یہ منصوبہ بنایا گیا کہ انکے گھر سے کچھ ہی دور مقیم اسد طور پر حملہ کیا جائے، یوں ابصار گھر سے نکل کر اسد کے گھر یا ہسپتال جائیں گے، اور اسی دوران ان پر بھی حملہ کر دیا جائے گا۔ لیکن اسد طور پر حملے سے پہلے ہی یہ معلومات ملیں کہ ابصار نے روزانہ صبح پارک میں واک کرنے کا سلسلہ بحال کر دیا ہے اس لئے فی الحال اسد کی بجائے پہلے ابصار کو نشانہ بنانے کا پلان بنایا گیا۔
ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے اشتہاری زین نے حماد سلیمان کو حملے کا جواز یہ بتایا کہ ’’غیرت‘‘ کا معاملہ ہے جبکہ اسد طور پر اس لئے حملہ کرنا ہے کیونکہ وہ ابصار عالم کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ حماد کو اس کام کیلئے تین اقساط میں 15؍ لاکھ ملے، حالانکہ پہلے معاہدہ 10؍ لاکھ میں ہوا تھا۔ پیسے وصول کرنے کیلئے حماد لاہور کے آر اے بازار میں ایک شخص سے ملا جو مہنگی جاپانی گاڑی میں سوار تھا، جس شخص نے ابصار عالم کا پتہ دیا اس کی حماد سے ملاقات ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے باہر ہوئی۔ چنانچہ پیسوں کی وصولی کے بعد اسلام آباد میں ابصار عالم کی رہائش گاہ کی ریکی شروع ہوئی۔
یہ لوگ شیخوپورہ سے رینٹ اے کار لے کر اسلام آباد آتے، ویڈیوز بناتے اور دن کا کام مکمل کرنے کے بعد بری امام یا پھر گولڑہ شریف چلے جاتے تاکہ بزرگانِ دین کو خراج پیش کیا جا سکے۔
اس دوران زین غیاث نے ابصار پر حملہ کرنے کے لیے بنائے نیٹ ورک میں شامل لوگوں کو آپریشنل مقاصد کیلئے مزید ڈیڑھ لاکھ روپے دیے اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ان کیلئے مشرق وسطیٰ میں ملازمت کا بندوبست بھی کرے گا۔ حماد سلیمان کے مطابق اس نے پیسوں کی ایک اور قسط راولپنڈی کے میٹرو اسٹیشن سے ایک بوڑھے شخص سے وصول کی، یہ وہی شخص تھا جس نے اسے پہلے آر اے بازار میں رقم ادا کی تھی۔ حماد کا کہنا ہے کہ وہ ابصار عالم پر حملے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے روز شیخوپورہ سے روانہ ہوتا اور جڑواں شہروں آتا۔ وہ پہلے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتا تھا لیکن اسکے بعد رینٹ اے کار استعمال کرنا شروع کر دی کیونکہ اسے بھائی لوگوں سے پیسے ملنا شروع ہوگئے تھے۔ شیخوپورہ سے اس کا ایک دوست حامد امین اسکے ساتھ آتا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابصار پر گولی چلانے والا شخص ندیم اصغر ورک خوشاب کا رہائشی یے۔ تاہم تفتیشی حکام یہ بات کہنے کو تیار نہیں کہ ابصار عالم پر حملے کا منصوبہ ایک خفیہ ایجنسی نے تیار کیا تھا۔