کیا انڈیا سندھ اور چناب دریاؤں پر آبی منصوبے بنانے میں کامیاب ہوگا؟

انڈیا نے پاکستان کے ساتھ دہائیوں پرانا انڈس واٹر معاہدہ معطل تو حالیہ کشیدگی کے دوران کیا ہے لیکن در حقیقت مودی سرکار ایک لمبے عرصے سے پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے انڈیا نے اب دریائے چناب اور دریائے سندھ پر نئے آبی منصوبے تعمیر کرنے کی تیاری کر لی ہے جسکے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ پاکستان نے پہلے ہی دوٹوک اعلان کر رکھا ہے کہ پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کو بھارت کی جانب سے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا لہذا حالات کی خرابی کا ذمہ دار بھارت ہو گا۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے جہاں پاکستان کے لیے مختص دریاؤں پر بڑے آبی منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے وہیں پاکستان کو پانی کی سپلائی کم کرنے کے لئےدریائے چناب کو بیاس اور دریائے راوی سے ملانے کے منصوبے پر بھی کام تیز کر دیا ہے جبکہ رنبیر نہر کی لمبائی کو دوگنا کر کے 120 کلومیٹر تک لے جانے کی منصوبہ بندی بھی مکمل کر لی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارت میں اس حوالے سے کافی عرصے سے کام چل رہا تھا تاہم مودی سرکار عالمی دباؤ کے پیش نظر اس منصوبے پر عملدرآمد سے گریزاں تھی۔ تاہم پہلگام واقعہ کو بہانہ بنا کر جہاں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا وہیں سندھ طاس معاہدہ بھی معطل کر دیا تھا اور اب بھارت نے پاکستانی دریاؤں پر بھی اپنا حق جماتے ہوئے ان کا پانی روکنے کیلئے بڑے آبی منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہدایت پر چناب، جہلم اور سندھ دریاؤں پر بڑے آبی منصوبوں پرکام تیز کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے ۔ حالانکہ ان دریاؤں کا پانی سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے مختص ہے ۔بھارتی حکومت کی جانب سے چناب سے نکالی گئی رنبیر نہر کو دوگنا کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے ، جس سے پانی موڑنے کی بھارتی صلاحیت 40 مکعب میٹر فی سیکنڈ سے بڑھا کر 150 مکعب میٹر فی سیکنڈ کر دی جائے گی۔ واضح رہے کہ رنبیر نہر 19ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی، اور یہ بھارتی پنجاب سے گزر کر پاکستان کے زرعی علاقوں تک پہنچتی ہے ۔
مبصرین کے مطابق سیز فائر اور جنگ بندی کے باوجود بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ تاحال معطل ہے جبکہ اب بھارت نے پاکستان کا پانی روکنے کیلئے دریائے چناب پر نہر کی توسیع سمیت نئے آبی منصوبوں پر بھی کام شروع کردیا ہے، عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پہلگام واقعے کو جواز بناتے ہوئے دہلی نے دریائے سندھ کے پانی کے نظام پر 1960 میں کیے گئے سندھ طاس معاہدے یعنی انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کردیا تھا ۔ پاکستان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید بھی کی تاہم اس کے باجود بھارت نے پاکستانی سرزمین پر میزائل اور ڈرون حملے کیے جس کے جواب میں کارروائی کرتے ہوئے پاکستان نے بھی بھارت پر میزائل داغے اور اس کے چھ طیارے بھی مار گرائے۔ بعدازاں 10 مئی کو امریکی ثالثی میں پاکستان اور بھارت جنگ بندی پر راضی ہوگئے ہیں، تاہم جنگ بندی پر اتفاق رائے کے باوجود بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ تاحال ’ معطل’ ہے۔
ذرائع کے مطابق 22 اپریل کے پہلگام حملے کے بعد، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حکام کو دریائے چناب، جہلم اور دریائے پر پروجیکٹس کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد تیز کرنے کی ہدایت جاری کی تھی حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت مذکورہ بالا تینوں دریاؤں کا پانی پاکستان استعمال کرتا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ بھارت دریائے چناب سے نکلنے والی واقع رنبیر نہر کی لمبائی کو دگنا کر کے 120 کلومیٹر تک بڑھاناچاہتا ہے، جو بھارت سے گزر کر پنجاب تک جاتی ہے جو پاکستانی زراعت کا مرکز ہے، یہ نہر انیسویں صدی میں معاہدے پر دستخط ہونے سے بہت پہلے تعمیر کی گئی تھی۔بھارت کو آبپاشی کے لیے دریائے چناب سے محدود مقدار میں پانی نکالنے کی اجازت ہے، لیکن اس نہر کی لمبائی بڑھانے سے بھارت 150 کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گا، جو اس وقت تقریباً 40 کیوبک میٹر فی سیکنڈ ہے۔
پاکستان نے انڈیا کو فوجی شکست کے ساتھ سفارتی شکست کیسے دی ؟
ذرائع کے مطابق رنبیر نہر کو وسعت دینے کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ، بھارت ان منصوبوں پر بھی غور کر رہا ہے جن سے ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے مختص کردہ دریاؤں سے پاکستان میں پانی کا بہاؤ کم ہو جائے گا۔دہلی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے میں ہائیڈرو پاور منصوبوں کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے، اور اسے امید ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد بجلی کی پیداوار موجودہ 3360 میگاواٹ سے بڑھ کر 12000 میگاواٹ تک ہوجائے گی۔وزارتِ بجلی کی دستاویز کے مطابق، بھارت نے کم از کم پانچ ڈیموں کے لیے موزوں مقامات کی نشاندہی کرلی ہے جن میں سے چار دریائے چناب اور ایک دریائے جہلم کے معاون دریا پر بنایا جائے گا۔
بھارت کی جانب سے سامنے آنے والی آبی جارحیت کے بعد دونوں ممالک میں مزید کشیدگی بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ تاہم بھارت ہر صورت جارحانہ رویہ اپنانے پر بضد دکھائی دیتا ہے ۔ بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق بھارت’ سندھ طاس معاہدے کو اس وقت تک معطل رکھے گا جب تک کہ پاکستان معتبر اور ناقابل تنسیخ طور پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت ترک نہیں کر دیتا۔’ جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی غیر قانونی ہے اور اسلام آباد اسے نافذ العمل سمجھتا ہے۔ پاکستان نے بھارتی آبی جارحیت اور سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے خلاف سندھ طاس معاہدے کے ضامن ورلڈ بینک، عاللمی ثالثی عدالت یا بین الاقوامی عدالت انصاف میں قانونی کارروائی کی تیاری شروع کر دی ہے۔ دوسری جانب ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے معطلی کے حوالے سے تشویش صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہے۔جب خطے میں جغرافیائی سیاسی مقابلہ گہرا ہوتا جا رہا ہے، تو یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ دہلی کی جانب سے پانی کو اسلام آباد کے خلاف استعمال کرنے بعد بیجنگ کو انڈیا کے خلاف اسی حکمت عملی کو اپنانے کا جواز مل سکتا ہے۔‘جس سے پورا خطہ آبی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔