وزیراعلیٰ گنڈا پور کو اہم عسکری شخصیت کی نصیحت کی کہانی

وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈا پور نے اپنے دعووں کے برعکس 19 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں نہ تو عمران خان کی طویل قید کا معاملہ اٹھایا اور نہ ہی ان کی رہائی کے حوالے سے کوئی بات کی، الٹا موصوف کو اجلاس کے دوران یہ نصیحت کی گئی کہ وہ بار بار سرکاری وسائل کے بل پوتے پر احتجاجی قافلوں کی سربراہی کرتے ہوئے اسلام آباد آنے سے گریز کریں کیونکہ یہی ان کے حق میں بہتر ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ وزیراعلی خیبر پختون خواہ نے اپنی عمومی تاثر کے برعکس ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران مکمل تہذیب اور شائستگی کا مظاہرہ کیا اور جی جی کر کے گفتگو کرتے رہے۔ خیال رہے کہ اسں اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی، ڈی جی آئی بی، وزیراعظم شہباز شریف، چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے شرکت کی۔ علی امین گنڈا پور نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ وہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں عمران خان کی لمبی قید کا معاملہ اٹھائیں گے اور پی ٹی آئی کو درپیش مشکلات پر بات کریں گے۔ تاہم جب وقت آیا تو علی امین گنڈاپور نے کوئی پنگا ڈالنے کی بجائے اچھے بچوں کی طرح اجلاس میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اجلاس کے دوران عام شخصیت کی جانب سے نصیحت ملنے کے بعد گنڈاپور بالکل ہی خاموش ہو گئے چونکہ اس نصیحت کا درجہ وارننگ والا تھا۔

اجلاس میں شریک ہونے والی ایک حکومتی شخصیت نے بتایا کہ وزیر اعلی خیبر پختون خواہ دراصل وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ والی کرسی پر براجمان تھے اور دونوں اجلاس سے پہلے، اس کے دوران اور اس کے بعد بھی مسلسل آپس میں سرگوشیاں کرتے رہے۔ گنڈاپور اور محسن نقوی کی باڈی لینگویج سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دونوں اکثر رابطے میں رہتے ہیں اور ان کی آپس میں کافی فرینک نیس ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی کے ایک سینئیر ترین غیر سیاسی رکن نے علی امین گنڈا پور کو نصیحت کی کہ وہ خیبر پختون خوا سے احتجاجی ریلیاں پنجاب لانے سے گریز کریں کیونکہ ایسے اقدامات سے بین الصوبائی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں ہو گا۔

بتایا جاتا ہے کہ اس گفتگو کا آغاز تب ہوا جب وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے یہ کہا کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کس قانون اور کس ضابطے کے تحت سرکاری وسائل کے بل بوتے پر پشاور سے اسلام آباد تک سرکاری ملازمین کی ہمراہی میں احتجاجی ریلیوں کی قیادت کرتے ہیں اور مسلسل ریاست کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کرتے ہیں۔ مریم نے کہا کہ اس طرح کے احتجاج سے انسانی جانوں کے علاوہ  قومی وسائل کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ مریم کی تنقید کے جواب میں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے پی ٹی آئی کو خصوصاً پنجاب میں درپیش مشکلات کے بارے میں بات کی، اور کہا کہ ہمارے کارکنوں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی پر امریکہ نے بڑا بیان دے دی

اپیکس کمیٹی اجلاس میں شریک ایک شخصیت نے بتایا کہ مریم نواز کا لب و لہجہ ذرا سخت ہونے کے باوجود گنڈا پور نے ماضی کے بر عکس پرسکون انداز سے جواب دیا۔ تاہم اس دوران دونوں وزرائے اعلیٰ کے درمیان مزید کوئی بحث نہیں ہوئی۔ جب پوچھا گیا کہ کیا گنڈا پور یا کمیٹی کے کسی اور رکن نے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات کے حوالے سے کوئی بات کی تو اجلاس میں شرکت کرنے والے شخص نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔

تاہم، علی امین گنڈاپور کی جانب سے مریم نواز کے اعتراضات کا جواب دیے جانے کے بعد وردی میں ملبوس ایک غیر سیاسی شخصیت نے گنڈا پور کو نصیحت کی کہ وہ خیبر پختونخواہ سے پنجاب اور اسلام آباد احتجاجی ریلیاں لانے سے گریز کریں کیونکہ اس سے بین الصوبائی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اسلئے ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے۔

Back to top button