کیا پاکستان امن انعام کے لیے ٹرمپ کی نامزدگی واپس لے گا یا نہیں؟

حکومت پاکستان کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ مسلسل تنقید کی زد میں ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف سے بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایران پر اسرائیلی اور امریکی حملوں کے ذمہ دار شخص کی نامزدگی کو واپس لیں۔ تاہم وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ انہوں نے ٹرمپ سے زیادہ نوبیل امن انعام کی اہلیت رکھنے والا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے کرتا دھرتا لوگوں نے امریکی صدر کو اس باوقار امن انعام کے لیے نامزد کرنے کو ’بے جا خوشامد‘ اور قومی بے عزتی قرار دیا ہے۔ یہ نامزدگی ایسے وقت میں سامنے آئی جب ایران پر امریکی بمباری سے محض چند گھنٹے قبل پاکستان نے ٹرمپ کو اس سفارت کاری پر نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا جس کے باعث مئی 2025 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہوئی تھی۔ لیکن اس نامزدگی کے 24 گھنٹوں بعد ہی اسلام آباد نے ایران پر امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بین الاقوامی قوانین‘ اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ضوابط کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

اس کے بعد شرمندگی کا شکار وزیر اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کو فون کر کے امریکی بمباری پر تشویش کا اظہار بھی کیا، جو اقوام متحدہ کے جوہری ادارے کی نگرانی میں چلنے والی تنصیبات پر کی گئی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی نامزدگی نے پاکستانی حکومت کو ایک سفارتی الجھن میں ڈال دیا ہے کیونکہ ماضی میں اسلام آباد نے فلسطینی کاز کی مسلسل حمایت کی ہے اور اسرائیل کے ساتھ تنازعے میں ہمیشہ ایران کا ساتھ دیا ہے۔

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے حکومت کی جانب سے صدر ٹرمپ کی حمایت کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ہمارے قومی وقار کو ٹھیس پہنچی۔ انہوں نے ایکس پر لکھا ’ایک ایسا شخص جو غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کی جنگ کی حمایت کرتا رہا اور ایران پر حملے کو ’شاندار‘ کہتا ہے، اسے نامزد کرنا ہمارے قومی وقار کے خلاف ہے۔‘ انہوں نے کہا پاکستانی حکومت کو اس ’غیر دانش مندانہ فیصلے پر شرمندہ‘ ہونا چاہیے اور ’اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے۔‘

جمعیت علما اسلام کے سربراہ سینیٹر مولانا فضل الرحمٰن نے بھی ٹرمپ کی نامزدگی کو اخلاقی طور پر ناقابل دفاع قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا ’ٹرمپ نے فلسطین، شام، لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی حمایت کی ہے، یہ شخص کیسے امن کی علامت ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد جمیعت علماء اسلام کی جانب سے سینیٹر کامران مرتضی نے ایوان بالا میں ایک قرارداد بھی جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ ٹرمپ کی نامزدگی کو فوری طور پر واپس لینا چاہیے کیونکہ ایران پر امریکی بمباری بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی، ایران کی خودمختاری میں مداخلت اور انسانی حقوق کی پامالی ہے، جس سے خطے میں امن کو خطرہ لاحق ہوا۔

سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ صدر ٹرمپ نے جان بوجھ کر غیر قانونی جنگ کا آغاز کیا۔ وہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے زیر اثر آ چکے ہیں۔

انہوں نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں اور صدر ٹر مپ کی نامزدگی کو واپس لیں۔ مشاہد نے لکھا کہ صدر ٹرمپ نے ’دھوکہ دہی سے کام لیا اور جنگی تنازعات سے دور رہنے کا وعدہ ایران پر حملہ کر کے توڑ دیا۔

سول سوسائٹی کی شخصیات نے بھی اس معاملے پر رائے دی۔ مریم کنور نے کہا کہ ’دوہری پالیسی پاکستان کا پرانا وتیرہ ہے۔ امریکہ فلسطینی عوام کی نسل کشی کروا رہا ہے اور ایران پر اسرائیلی بمباری کے ساتھ کھڑا ہے، دوسری جانب پاکستانی حکومت اسی ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کر رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ایسا کرتے ہوئے پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ کرائے کے ریاستی ٹٹو کا کردار ادا کرتا رہے گا۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی نامزدگی پاکستان کے طاقت ور آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور امریکی صدر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے فوراً بعد کی گئی۔

یہ ملاقات پاکستان کے لیے سفارتی کامیابی تصور کی گئی کیونکہ یہ انڈیا کے ساتھ حالیہ محدود فوجی جھڑپ کے فوراً بعد ہوئی۔ دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے ٹرمپ کی نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگی کے حکومتی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ماضی میں جتنے لوگوں کو امن کے نوبیل انعام ملے ہیں ان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسی اہلیت والا کوئی نہیں ہے۔

سویلین کے ملٹری ٹرائل کا کیس : اعتزاز احسن نے نظرثانی کی اپیل دائر کردی

خواجہ آصف نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ’آپ ماضی میں دیکھ لیں کہ جن لوگوں کو بھی دہائیوں میں امن کے نوبیل انعام ملے ہیں، کبھی آپ کو اس قسم کی اہلیت والا امیدوار نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے نہ صرف بھارت اور پاکستان کے مابین سیز فائر کرایا بلکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بھی جنگ بندی کروائی۔ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیڑھ مہینے کی مدت دو سیز فائر کرائے ہیں۔ یہ حقیقت ان کی نامزدگی کو مزید مضبوط بناتی ہے۔

Back to top button