نواز شریف لاھور کی بجائے سیدھا اسلام آباد کیوں آئیں گے؟

سینئر صحافی اور کالم نگار نصرت جاوید نے کہا ھے کہ یہ بات اب طے ہوتی نظر آرہی ہے کہ دوبئی سے براہ راست لاہور روانہ ہونے کے بجائے نواز شریف 21 اکتوبر کو چند گھنٹوں کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ رکیں گے تا کہ قانون کے سامنے سرنڈر کرنے کے بعد اگر عدالت ”حفاظتی ضمانت“ دینے کے لئے ”ملزم“ کی ”ذاتی حاضری“ پر اصرا ر کرے تو سابق وزیر اعظم وی آئی پی لاﺅنج سے سرعت کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ سکیں ۔ اپنے ایک کالم میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ چند ہفتے قبل مسلم لیگ (نون) کے صدر شہباز شریف نے لندن میں اپنے بڑے بھائی کی موجودگی میں اعلان کیا کہ بالآخر لندن میں تقریباََ چار برس کی جلاوطنی گزارنے کے بعد نواز شریف رواں مہینے کی 21 تاریخ کو لاہور لوٹنے کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔یہ اعلان ہوا تو خلقت معصوم نے جبلی طورپر طے کرلیا کہ شہباز شریف کی ہونہار سفارت کاری یا ہماری ریاست کے دائمی اداروں سے چھپ چھپا کر ہوئے مذاکرات کی بدولت وطن عزیز کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کی مشکلات آسان ہوگئی ہیں۔ 21 اکتوبر 2023ءکے دن مسلم لیگ (نون) کے تاحیات قائد جہاز میں بیٹھ کر لاہور روانہ ہوجائیں گے۔لاہور کے ایئرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال ہوگا اور وہاں سے ایک ”تاریخ ساز“ قافلے کے ساتھ وہ مینارِ پاکستان پہنچ کر عوام کے دلوں کو گرمانے والا خطاب فرمائیں گے۔
نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ شریف صاحب کی بلاکسی روک ٹوک آمد کی جو خوش کن داستانیں سنائی جارہی تھیں انہوں نے دودھ کے جلے مجھ بدنصیب کو مجبور کیا کہ عاشقان نواز شریف کو یاد دلاﺅں کہ ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں کسی بھی انتخابی عہدے کے لئے تاحیات نااہل قراردیئے سابق وزیر اعظم کو احتساب کے نام پر بنائے چند مقدمات کی بدولت ہائی کورٹ ”بھگوڑا“ بھی ٹھہراچکی ہے۔ زورزبردستی سے سنائے فیصلے مگر اس حقیقت کو نہیں جھٹلاتے کہ نواز شریف کے لئے لاہور ایئرپورٹ اترکر قافلے کی صورت مینارِ پاکستان کی جانب رواں ہونا قانونی اعتبار سے ممکن نہیں۔ نواز شریف کی ”ڈھول ڈھمکے“ کے ساتھ وطن واپسی یقینی بنانے کے لئے لازمی ہے کہ ان کے وکلا نواز شریف کو قانون کے روبرو ”سرنڈر“ کروانے کے بعد ان کی ”حفاظتی ضمانت“کا بندوبست کریں۔ سابق وزیر اعظم کے لئے خود پر جائز وناجائز بنیادوں پر مسلط ہوئے ”قانونی تقاضوں“ کا احترام اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے بھی لازمی تھا۔ عدالت سے ”بھگوڑا“ ٹھہرائے نواز شریف اگر لاہور ایئرپورٹ اترکر طویل قافلے کےساتھ خراماں خراماں مینارِ پاکستان کو روانہ ہوجاتے تو خلقت معصوم کو فقط ایک ہی پیغام جاتا اور وہ یہ کہ بالآخر نواز شریف کا نام نہاد مقتدر قوتوں سے ”مک مکا“ ہوگیا ہے اور آئندہ انتخاب کے لئے انہیں 2018ءوالے انتخاب کے عمران خان کی طرح ”سہاگن“ چن لیا گیا ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ بالآخر یہ بات اب طے ہوئی نظر آرہی ہے کہ دوبئی سے براہ راست لاہور روانہ ہونے کے بجائے نواز شریف 21اکتوبر کے دن چند گھنٹوں کے لئے اسلا م آباد ایئرپورٹ اتر کر وہاں رکنا چاہیں گے۔ ان کی اسلام آباد آمد کا حوالہ دیتے ہوئے وکلاءکے لئے عدالت کو یہ بتانا آسان ہوجائے گا کہ مسلم لیگ (نون) کے قائد نے خود کو قانون کے ر وبرو ”سرنڈر“ کردیا ہے اور عدالتی رحم وکرم کے روبرو سپراندازہونے کے بعد وہ اب ”حفاظتی ضمانت“ کے مستحق ہیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر نواز شریف کی آمد اور قیام اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر عدالت ”حفاظتی ضمانت“ دینے کے لئے ”ملزم“ کی ”ذاتی حاضری“ پر اصرا ر کرے تو سابق وزیر اعظم وی آئی پی لاﺅنج سے سرعت کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ سکتے ہیں۔ 21اکتوبر کے دن نواز شریف کی لاہور آمد سے قبل اسلام آباد ایئرپورٹ پرلینڈنگ کا خیال مجھے عرفان کے اس کالم کو پڑھ کر ہوا تھا جو انہوں نے حال ہی میں لندن میں نواز شریف سے ہوئی کئی ملاقاتوں کے بعد لکھا تھا۔ اس کالم کے ذریعے انہوں نے بنیادی طور پر ان افواہوں کی سختی سے تردید کی جو نواز شریف کے وطن لوٹنے کے امکانات کو جھٹلارہی تھیں۔ان کی وطن واپسی کو یقینی بتاتے ہوئے عرفان صدیقی نے تفصیل سے یہ ذکر بھی کردیا کہ لندن سے روانگی کے بعد سابق وزیر اعظم کون کون سے شہر سے ہوتے ہوئے بالآخر دوبئی پہنچیں گے اور وہاں سے وطن واپسی کے لئے ”خصوصی“ بنائے جہاز میں سوار ہوجائیں گے۔اس جہاز سے لاہور کی جانب پرواز کے حوالے سے انہوں نے ایک اور پرواز کے ”پیوند“ کا ذکر بھی کیا۔لفظ ”پیوند“ کے استادانہ استعمال نے میرے لئے یہ فرض کرنا ممکن بنایا کہ نواز شریف صاحب براہ راست لاہور پرواز کرنے کے بجائے پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ اتر کر وہاں چند گھنٹے قیام کو ترجیح دیں گے او راب یہ ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔