مشرف کو سزا سنانے والا جج سپریم کورٹ کا جج نہ بن سکا

دو مرتبہ پاکستانی آئین سے کھلواڑ کرنے والے جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے جج جسٹس وقار احمد سیٹھ اور اس سزا کو معطل کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی بطور سپریم کورٹ جج ترقی کے معاملے پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں اور جسٹس وقار نے جسٹس مظاہر کی ترقی کو چیلنج کردیا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں خالی ہونے والی سیٹ پر سنیارٹی کے اصول کے تحت جسٹس وقار سیٹھ کا حق بنتا تھا چونکہ وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں تاہم ان کی جگہ لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی کو سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔
سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اپنی جگہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کے خلاف چیف جسٹس پاکستان کو درخواست دیتے ہوئے اسے ناانصافی اور آزاد عدلیہ کے وقار کے منافی قرار دیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سمجھے جانے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی ترقی کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جسٹس وقار احمد سیٹھ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کو ایک شکایت ارسال کی ہے جو جوڈیشل کمیشن پاکستان کے چیئرمین بھی ہیں۔ جسٹس وقار سیٹھ نے سینیئر قانون دان قاضی انور ایڈووکیٹ کی وساطت سے سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائی گئی ایک صفحے پر مشتمل درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں آؤٹ آف ٹرن ترقی سے آزاد عدلیہ مجروح ہوگی اور ہائی کورٹ کے ججز کے درمیان اعلٰی عہدے پانے کے لیے غیر صحت مندانہ مقابلے سے انارکی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی، اس کے ساتھ عوام میں عدلیہ کا وقار بھی مجروح ہوگا۔
قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کو جنرل مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے کی پاداش میں سپریم کورٹ آف پاکستان کاجج نہیں بنایا گیا جبکہ ان کی جگہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو سپریم کورٹ کا جج لگاکر اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ جنرل مشرف کو تین مرتبہ سر عام سزائے موت کا فیصلہ سنانے کے بعد جسٹس وقار سیٹھ پر اسٹیبلشمنٹ اور برسراقتدار تحریک انصاف کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا جائے گا تاہم آج تک یہ ریفرنس فائل نہیں ہوسکا لیکن سزا کے طور پر جسٹس وقار کی ترقی روک کر اس جج کو سپریم کورٹ میں لگایا گیا ہے جس نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کےعین مطابق جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ یاد رہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کی جانب سے مشرف کے حق میں دئیے جانے والا فیصلہ پنجاب بار کونسل نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے اور ابھی اس کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو جسٹس وقار سیٹھ سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے حال ہی میں فوجی عدالتوں سے 72 دہشت گردوں کو سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں کو معطل کردیا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں 16 مارچ کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ سے خالی ہونی والی اسامی پر لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سے سپریم کورٹ کے جج کے عہدے کا حلف لیا تھا۔ تاہم تعیناتی کے بعد فوراً پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے چیف جسٹس پاکستان کو اس درخواست کے ساتھ پٹیشن ارسال کردی ہے کہ سپریم کورٹ جج کی تعیناتی کی سفارش سینیارٹی اور میرٹ کی بنیاد پر کی جانی چاہیئے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی پٹیشن پر ردِ عمل دیتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قلب حسن کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج کو اس طرح کا تنازع کھڑا کرنا زیب نہیں دیتا۔ عدالت عظمیٰ میں ہائی کورٹ کےجج کی شمولیت ہمیشہ ایک نئی تعیناتی سمجھی جاتی ہے اوراس صورتحال میں سینیارٹی کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔ قلب حسن کے مطابق اسی طرح کی آؤٹ آف ٹرن ترقیاں ماضی قریب میں ہوئی تھی جب جونیئر ججز کو تعینات کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سینیارٹی کا اصول مدِ نظر رکھا جائے جیسا جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اپنی پٹیشن میں مطالبہ کیا تو سندھ ہائی کورٹ کے احمد علی شیخ اعلیٰ عدلیہ کے ججز میں سب سے سیننئر ہیں۔ تاہم دوسری جانب جسٹس وقار کا اپنی درخواست میں کہنا تھا کہ آئین اور سپریم کورٹ کی جانب سے الجہاد ٹرسٹ اور 1998 کے ملک اسد علی کیس میں نافذ کیے گئے قانون کی روشنی میں درخواست گزار سینیارٹی، میرٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کے لیے سینئر ترین جج ہیں۔