کیا یرغمال بنائی گئی ٹرین میں سکیورٹی فورسز کے جوان سوار تھے؟

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے درۂ بولان میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ٹرین میں سویلین نہیں بلکہ سکیورٹی فورسز کے جوان سوار تھے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سکیورٹی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ ٹرین حملے میں ملوث ڈیڑھ درجن سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ 100 سے ذیادہ مسافروں کو رہا کروا لیا گیا ہے۔ تاہم سیکیورٹی فورسز کا آپریشن ابھی جاری ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی ٹرین میں 500 کے قریب مسافر سوار تھے۔

سکیورٹی ذرائع نے ٹرین پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسندوں نے منگل کو ڈھاڈر کے مقام پر ٹرین پر حملہ کیا اور وہاں واقع ایک سُرنگ میں اسے روک کر مسافروں کو یرغمال بنالیا۔

دوسری جانب بی ایل اے کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ یرغمالیوں میں شامل تمام افراد کا تعلق سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ یاد رہے کہ بی ایل اے گذشتہ ایک دہائی سے بلوچستان میں متحرک ہے لیکن حالیہ برسوں میں عسکریت پسند تنظیم اور اس کے ذیلی گروہ مجید بریگیڈ کے حملوں میں شدت اور تیزی نظر آئی ہے۔

بلوچستان میں دہشت گردی کا تازہ واقعہ مچھ میں گڈا لار اور پیرو کنری کے درمیانی علاقے میں پیش آیا، جہاں کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں ٹرین ڈرائیور زخمی ہو گیا۔ ٹرین روکنے کے بعد اسے ہائی جیک کر لیا گیا۔

ریلوے ذرائع کا کہنا ہے کہ سبی کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری طلب کرلی گئی ہے۔

کنٹرولر ریلوے محمد کاشف جعفر ایکسپریس 9 بوگیوں پر مشتمل ہے، اور اس میں 500 کے قریب مسافر سوار ہیں، ٹرین کو 8 نمبر ٹنل میں فائرنگ کر کے روکا گیا۔

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس کو ٹنل میں روک کر مسافروں کو یرغمال بنایا۔ انکا کہنا تھا کہ علاقہ انتہائی دشوار گزار اور سڑک سے دور ہونے کے باوجود سیکیورٹی فورسز نے ٹرین کو گھیرے میں لے کر کلیئرنس آپریشن شروع کر رکھا ہے، دہشت گردوں نے جن معصوم مسافروں کو یرغمال بنا رکھا ہے، ان میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ رہا کرائے جانے والے 80 مسافروں میں بھی 50 کے قریب خواتین اور بچے ہیں۔

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ دہشت گرد بیرون ملک اپنے سہولت کاروں سے رابطے میں ہیں، اور انہوں نے عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنایا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بی ایل اے کی ذیلی تنظیم مجید بریگیڈ پر پابندی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ پاکستان اور امریکہ اس تنظیم پر پہلے ہی پابندی عائد کر چکے ہیں۔ 26 اگست 2006 کو جنرل مشرف جنتا کے ہاتھوں بلوچ قوم پرست رہنما اور سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب اکبر بگتی کی شہادت کے بعد سے بلوچستان میں صورتحال قابو میں نہیں رہی اور بی ایل اے کی کاروائیوں میں کئی سو گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بی ایل اے نے فدائین حملوں کے علاوہ خودکش حملے بھی شروع کر دیے ہیں جن میں اب تک چار خواتین بھی اپنی جانیں دے چکی ہیں۔

بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں جس پہلے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی وہ بی ایل اے کے مرکزی کمانڈر اسلم بلوچ عرف اسلم اچھو کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین میں کیا تھا جس میں ایک چینی کمپنی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ مجید بریگیڈ کے خودکش بمباروں نے 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ کو بھی نشانہ بنایا۔ لیکن اسی سال دسمبر میں اسلم اچھو قندھار میں ایک حملے میں مارا گیا۔

استاد اسلم اچھو کی موت کے بعد قیادت بشیر زیب کے پاس آئی ، اس کی قیادت میں بھی فدائی حملوں کا سلسلہ جاری رہا جن میں خواتین کی شرکت بھی نظر آنے لگی۔

سال 2019 میں گوادر میں واقع پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ کیا گیا اور 2020 میں کراچی میں واقع پاکستان سٹاک ایکسچینج پر فدائی حملہ کیا گیا۔ 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون نے چائینیز لینگویج کے  سینٹر کے چینی اساتذہ پر خودکش حملہ کیا۔ بشیر زیب کی قیادت میں جہاں سوشل میڈیا پر بی ایل اے اور اس کی ذیلی تظیموں کا پروپیگنڈا بڑھا، وہیں اس کے اہداف میں بھی اضافہ ہوا۔ 2023 میں تربت میں سمیعہ قلندرانی نامی خاتون خود کش بمبار نے ایف سی کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا۔ سمیعہ دراصل اسلم اچھو کے بیٹے ریحان کی منگیتر تھی۔ 2024 میں ماہل بلوچ نامی خاتون نے بیلہ میں ایف سی کے کیمپ پر خودکش حملہ کیا۔

جعفر ایکسپریس حملہ : آپریشن میں 155 مسافر بازیاب، 27 دہشت گرد ہلاک

جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن کے لیے اپنی ریسرچ پیپر میں عبدالباسط لکھتے ہیں کہ مجید بریگیڈ کے پاس اعلیٰ درجے کے ہتھیار موجود ہیں جن میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات، اینٹی ٹینک بارودی سرنگیں، دستی بم، راکٹ سے چلنے والے دستی بم اور مختلف خودکار ہتھیار شامل ہیں۔ ان کے مطابق مجید بریگیڈ کے عسکریت پسندوں کو خودکش جیکٹ بنانے کے لیے "سی فور” جیسے جدید ترین دھماکہ خیز مواد تک رسائی حاصل ہے۔ تاہم بلوچستان لبریشن آرمی یا کسی اور دہشت گرد تنظیم کی جانب سے پاکستان میں مسافر ٹرین کو ہائی جیک کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

Back to top button