پاکستانیوں کے لیے بجلی مہنگی کیوں ہوتی جا رہی ہے؟

پاکستان میں ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ تاہم اس صورتحال کا سب سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کا اصل سبب صرف مہنگائی نہیں بلکہ ریگولیٹری اداروں کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی بھی ہے۔ عوام کو ہر ماہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی جیسے ریگولیٹری اداروں کی نااہلی، غفلت اور بدانتظامی کا خمیازہ مہنگے ترین بجلی کے بلوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے، یعنی ریگولیٹری اداروں کی غلطیوں اور مفاداتی فیصلوں کی سزا عام شہری کو اپنی جیب سے ادا کرنی پڑتی ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق اکثر کیپیسٹی پیمنٹس، کرنسی کی قدر میں کمی اور زرِ مبادلہ کی غیر یقینی صورتحال کو مہنگی بجلی کی بنیادی وجہ قرار دیاجاتا ہے جبکہ کمزور معاہداتی شرائط، معاہدوں پر عملدرآمد کے فقدان اور ناکافی ریگولیٹری نگرانی جیسے مسائل پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی تاہم حقیقت یہ ہے کہ دیگر کئی وجوہات کے ساتھ ساتھ نیپرا اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی جیسے اداروں کی مفاد پرستی کی وجہ سے خاموشی کے ساتھ نجی کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی خلاف ورزیوں کا سارا بوجھ براہِ راست صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ریگولیٹری اداروں کی نااہلی کی وجہ سے عوام مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں۔
ناقدین کے مطابق نیپرا ایک آزاد ریگولیٹر کی بجائے حکومتی مفادات کا محافظ بن چکا ہے، جو بجلی کے نرخ بڑھانے کے لیے تو فوراً اجلاس بلا لیتا ہے مگر صارفین کے تحفظ یا شفاف احتساب پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھتا ہے۔ دوسری جانب سی پی پی اے کی ناقص خریداری پالیسیوں، پاور پلانٹس سے کئے گئے مہنگے معاہدوں اور لائن لاسز کے بوجھ نے بجلی کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ نتیجتاً، عوام مہنگی ترین بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ان اداروں کے اہلکار عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالیہ دنوں ریگولیٹری اداروں کی نااہلی ایک بار پھر اس وقت کھل کر سامنے آئی جب نیپرا نے اپنی ریگولیٹری ناکامیوں کی بھاری قیمت کا بوجھ بجلی کے صارفین پر ڈال دیا جس کی وجہ سے عوام کو مہنگی بجلی کی صورت میں تقریباً 21 کروڑ 50 لاکھ روپے کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑا۔
حالیہ دنوں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی نااہلی اس وقت کھل کر سامنے آئی جب پنجاب میں کوئلے سے چلنے والے ایک بجلی گھر کو طویل المدتی سپلائر نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئلہ سپلائی کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر ریگولیٹری اداروں نے اس کمپنی کو بلیک لسٹ کرنے یا اس پر جرمانہ عائد کرنے کی بجائے اس حوالے سے ہونے والا تمام نقصان عوام پر ڈال دیا جو بجلی کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا۔
گلوبل صمود فلوٹیلا میں شامل مشتاق احمد سمیت 131 افراد اسرائیل کی قید سے رہا
ذرائع کے مطابق ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ریگولیٹری اداروں نے اپنی نااہلی کا بوجھ عوام پر ڈالا ہو یہ معاملہ دسمبر 2024 میں ایک طویل المدتی کوئلہ سپلائی معاہدے کی خلاف ورزی سے شروع ہوا۔ جب کوئلہ سپلائی کرنے والی کمپبی نے جھوٹے بہانے تراشتے ہوئے بجلی کے پاور پلانٹ کو کوئلے کی سپلائی بند کر دی۔ جس کی وجہ سے بجلی گھر کو دوسرے سپلائر سے کوئلہ خریدنا پڑا، جس کی قیمت 1.86 ڈالر فی ٹن زیادہ تھی۔ تقریباً 3.72 لاکھ ٹن کوئلے کی عدم فراہمی سے بجلی گھر کو 6 لاکھ 91 ہزار 931 ڈالر یعنی تقریبا 19 کروڑ 70لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ جس پر نیپرا نے 26 جون 2025 کے فیصلے میں یہ رقم ڈیفالٹ کرنے والی کمپنی سے وصول کرنے کی بجائے مکمل نقصان صارفین پر ڈالنے کی اجازت دے دی حالانکہ معاہدے کے مطابق سپلائر اضافی لاگت ادا کرنے اور اپنی کارکردگی کی ضمانت ضبط کروانے کا پابند تھا جبکہ ریگولیٹری ادارے نے اپنی نااہلی پر پردہ ڈالتے ہوئے سپلائر کی زر ضمانت ضبط کرنے یا نقصان کی وصولی کو یقنی بنانے کی بجائے خاموشی سے یہ سارا نقصان صارفین کے کھاتے میں ڈال دیا۔ جس کی وجہ سے بجلی صارفین کو یہ اضافی بوجھ بجلی کے مہنگے بلوں کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔
