پاکستانیوں کے شناختی کارڈز تبدیل کرنےکافیصلہ کیوں ہوا؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مسلسل نت نئے مطالبات کا سلسلہ جاری ہے، تازہ ترین فرمائش میں الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے نام پر پورے ملک میں نہ صرف عوام کے ایڈریس بدلنے کا مطالبہ کر دیا ہے بلکہ تمام لوگوں کے شناختی کارڈ بھی تبدیل کرنے کی تجویز دے دی ہے۔ جس کے بعد حکام سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ ووٹر لسٹوں کی خامیاں دور کرنے کے لیے گاؤں اور دیہات کی سطح پر گلیوں اور گھروں کو بھی نمبر الاٹ کئے جائیں جس کے بعد نادرا کے موجود اور نئے شناختی کارڈز پر درست ایڈریسز کے اندراج کو یقینی بنایا جائے تاکہ ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کی راہ کو ہموار کیا جا سکے۔ الیکشن کمیشن کی تجویز پر حکومتی سطح پر غور و خوض جاری ہے کہ کیا اتنی بڑی مشق کرنا آسان ہو گی؟ اس کیلئے فنڈنگ کہاں سے آئے گی؟
مبصرین کے مطابق پاکستان میں ہمیشہ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل الیکشن کمیشن کو ووٹرز کے پتوں کی درستگی کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بظاہر سادہ دکھنے والا یہ مسئلہ اس وقت پیچیدہ صورت حال اختیار کر لیتا ہے جب شناختی کارڈ پر درج نامکمل یا عمومی ایڈریس ووٹر کو کسی ایک انتخابی حلقے میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوتا ہے۔
یہ مدعا الیکشن کمیشن نے حکومت کو بھیجی جانے والی سفارشات میں اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ووٹر لسٹوں کی تیاری میں پولنگ سٹیشنز کے قیام سمیت دوسرے انتخابی مراحل میں غیررجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیز اور نئی آبادیوں کی تیز رفتار توسیع کے باعث مشکل پیش آتی ہے۔ ان علاقوں میں باقاعدہ گلی نمبر یا گھر نمبر موجود نہ ہونے کی وجہ سے تصدیق کا عمل بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے این او سی کے اجرا سے متعلق قانون سازی کرنی چاہیے یا کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات دینی چاہییں۔ سفارشات میں واضح کیا گیا ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کو این او سی متعلقہ شہر کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد پر دیا جائے اور ماسٹر پلان کے تحت گلیاں نمبر اور مکان نمبر نہ بنانے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو این او سی نہ دیا جائے۔ اسی طرح موجودہ سوسائٹیز اور ٹاؤنز کی گلیوں اور مکانات کے نمبرز لگائے جائیں اور دیہاتوں میں بستیوں کی گلیوں اور مکانات کو بھی نمبر الاٹ کیے جائیں۔
الیکشن کمیشن نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا ہے کہ نادرا شناختی کارڈز میں مکمل پتہ نہیں لکھتا، جس کی وجہ سے ووٹرز کی درست طور پر نشاندہی نہیں ہو پاتی۔ اس کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ وفاقی حکومت نادرا کو موجودہ اور نئے شناختی کارڈز پر مکمل پتہ، گلی نمبر، بستی اور مکان نمبر لکھنے کی ہدایت کرے، کیونکہ مکمل پتہ نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن، امیدواروں اور ووٹرز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس طرح کے ادھورے پتے نہ صرف ووٹ کے اندراج اور منتقلی میں رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ امیدواروں اور ووٹروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ گذشتہ عام انتخابات میں مردم شماری کے باعث نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے جنرل الیکشنز تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔ اس بحران کے مستقل حل کے لیے کمیشن نے دو بنیادی آئینی و قانونی تجاویز پیش کی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی سفارش ہے کہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے چھ ماہ قبل اگر مردم شماری ہو تو کوئی حلقہ بندیاں نہیں ہونی چاہییں۔ اس مقصد کے لیے آرٹیکل 51 میں ترمیم کی جائے کہ ایسی صورت حال میں حلقہ بندیاں الیکشن کے بعد ہوں گی۔ اسی طرح الیکشنز ایکٹ کے سیکشن (2) 17 میں بھی ترمیم کی سفارش پیش کی گئی ہے۔ ان ترامیم کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے چھ ماہ پہلے مردم شماری کے باوجود پرانی حلقہ بندیوں پر جنرل الیکشن ہوں گے، جس سے انتخابی عمل میں ہونے والی غیرضروری تاخیر کو روکا جا سکے گا۔
فلسطینی اور پاکستانی ٹرمپ امن معاہدے بارے شاکی کیوں ہیں؟
الیکشن کمیشن کی جانب سے سامنے آنے والی سفارشات اور تجاویز نے حکومت کے چھکے چھڑا دئیے ہیں۔ تاہم وزارت قانون کے حکام کے مطابق الیکشن کمیشن کی سفارشات پر غور و خوض کیا جا رہا ہے کہ ان پر عمل درآمد کرنا کس حد تک ممکن ہے؟ اس حوالے سے مالی وسائل سمیت دیگر پہلوؤں پر بھی تبادلہ خیال جاری ہے اور یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ یہ تجاویز قابل عمل ہیں بھی یانہیں؟ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ ہو گا اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے ہوئے اسے عوام کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔
