فلسطینی اور پاکستانی ٹرمپ امن معاہدے بارے شاکی کیوں ہیں؟

معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ دنیا جتنی تیزی سے بدل رہی ہے اتنی ہی تیزی سے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے لیکن اس سے بھی ذیادہ تیزی سے دنیا غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سٹیٹ ایکٹرز عوام میں اعتماد کھو رہے ہیں اور نان سٹیٹ ایکٹرز پر عوام کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔
حامد میر روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تجزیے میں لکھتے ہیں کہ اگر کسی کو میری رائے سے اختلاف ہے تو مجھے بتائے کہ دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکی صدر ٹرمپ نے جس غزہ امن پلان کا اعلان کیا ہے اُس پر غزہ والوں کے اتنے تحفظات کیوں ہیں ؟ ٹرمپ کے اس امن پلان کو بہت سی حکومتوں نے تو سراہا ہے لیکن عوام کو ٹرمپ پر اعتماد نہیں۔ غزہ والے 79 سالہ ٹرمپ کی بجائے 22 سالہ گریٹا تھون برگ پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں جو نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی فلسطینی ہے۔ حامد میر کے مطابق فلسطینیوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ ٹرمپ سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق ٹرمپ کچھ مسلمان حکمرانوں کو اپنے ساتھ ملا کر صرف نوبل امن انعام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انہیں امن انعام تو مل جائے گا لیکن ہمیں امن نہیں ملے گا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ میں نے لندن میں مقیم ایک معروف فلسطینی صحافی سے پوچھا کہ ٹرمپ کے امن پلان کے علاوہ آپکے پاس کون سا آپشن ہے کیونکہ اقوام متحدہ تو غزہ میں سیز فائر کروانے میں ناکام ہو چکی ہے؟ اس صحافی نے جواب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں سیز فائر کی ہر کوشش کو ٹرمپ نے ناکام کرایا کیونکہ امریکا کے پاس ویٹو پاور ہے۔ ٹرمپ چاہتا ہے کہ سیز فائر کا کریڈٹ صرف اسے ملے لہٰذا اُس نے اوسلو امن معاہدے کی طرز پر اپنا امن پلان دیا ہے۔ 1994 میں اوسلو امن معاہدے کے بعد یاسر عرفات، شمعون پیریز اور اسحاق رابن کو نوبل امن انعام تو دے دیا گیا لیکن مشرق وسطیٰ کو امن نہ ملا۔ فلسطینی صحافی نے مجھے یاد دلایا کہ 1994 میں جنیوا میں یاسر عرفات اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ملاقات کے بعد میں نے کہا تھا کہ یاسر عرفات بھی جانتا ہے کہ اُسے نوبل امن انعام تو مل جائے گا لیکن فلسطینیوں کو امن نہیں ملے گا۔ فلسطینی صحافی کا کہنا تھا کہ غزہ کے ہولو کاسٹ نے دنیا کو بدل دیا ہے جس کا ابھی مسلم سٹیٹ ایکٹرز کو احساس نہیں ہو رہا اسلئے وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اگر ٹرمپ کا امن پلان قبول نہیں تو پھر آپکے پاس کیا آپشن ہے ؟
حامد میر کے بقول فلسطینی صحافی نے کہا کہ ہاں ! ہمیں ایک آپشن مل گیا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اُس نے کہا گریٹا تھون برگ۔ میں نے کہا وہ تو ایک ماحولیاتی ایکٹیویسٹ ہے۔ ویسے بھی 22 سال کی لڑکی غزہ کو امن کیسے دے سکتی ہے؟ میرے فلسطینی دوست نے کہا کہ اس لڑکی کو نوبل امن انعام سے نہیں بلکہ صرف حقیقی امن اور انسانیت سے غرض ہے۔ وہ ہمیں امن دے یا نہ دے لیکن اُس نے ہمیں انسانیت پر اعتماد تو دے دیا ہے۔ اُس نے ہم فلسطینیوں کو یہ احساس تو دیا ہے کہ کوئی سٹیٹ ہمارے ساتھ کھڑی ہو یا نہ ہو لیکن دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے نان سٹیٹ ایکٹرز ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور آگے چل کر یہی بے لوث لوگ امن کی طاقت بنیں گے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ اس فلسطینی صحافی نے دراصل مجھے مشتاق احمد خان کے متعلق کچھ تفصیلات جاننے کیلئے فون کیا تھا۔ وہ تصدیق کرنا چاہتا تھا کہ کیا واقعی مستاق احمد خان کو پاکستان میں فلسطین کے حق میں آواز اُٹھانے کے جرم میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے؟ میں نے اُسے بتایا کہ صرف مشتاق خان کو نہیں بلکہ انکی اہلیہ اور بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں بغیر تحریری اجازت کے مظاہرہ کرنے پر پابندی ہے۔ فلسطینی صحافی نے بتایا کہ گریٹا تھون برگ کو بھی اُس کے اپنے ملک سویڈن میں غزہ میں قتل و غارت کے خلاف مظاہرے کے دوران ٹریفک میں خلل ڈالنے کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا اور غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی کوشش پر دو بار اسرائیل نے بھی اسے گرفتار کیا۔ فلسطینی صحافی نے پوچھا کہ سچ سچ بتانا، غزہ کے معاملے پر پاکستان کے عوام کی اکثریت اپنی حکومت پر زیادہ اعتماد کرتی ہے یا مشتاق احمد خان پر ؟ میں نے جواب میں کہا کہ اگر ریفرنڈم ہو اور پاکستانیوں سے پوچھا جائے کہ ٹرمپ کے امن پلان پر آپ لوگ پاکستانی حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہیں یا مشتاق احمد خان کی تو عوام کی اکثریت مشتاق خان کے حق میں ووٹ دے گی ۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں اپنے کاروبار کیوں بند کرنے لگیں؟
فلسطینی صحافی کا کہنا تھا کہ غزہ کے باسیوں اور پاکستان کے عوام کی رائے میں کوئی فرق نہیں۔ غزہ والے گریٹا تھون برگ پر اعتماد کرتے ہیں اور پاکستانی مشتاق احمد خان پر۔ان دونوں نے دیگر سینکڑوں رضاکاروں کے ساتھ مل کر فلوٹیلا کے ذریعے غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی عملی کوشش کی حالانکہ اس ناکہ بندی کو توڑنا دراصل او آئی سی کے رکن ممالک کی ذمہ داری تھی۔ لیکن جب سٹیٹ ایکٹرز ناکام ہو گئے تو 44 ممالک کے 500 نان سٹیٹ ایکٹرز آگے آئے اور انھوں نے 50 بحری کشتیوں کے ایک قافلے کے ذریعے غزہ پہنچنے کی کوشش کی۔ جب وہ غزہ کے قریب پہنچے تو اسرائیلی کمانڈوز نے ان کشتیوں پر پہلے ڈرون حملےکیے اور پھر گھیرا ڈال کر سب کو گرفتار کر لیا یوں فلوٹیلا اپنی منزل مقصود پر تو نہیں پہنچ سکا لیکن دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب رہا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جو بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر معصوم بچوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔
