امریکہ نے بگرام کااڈاواپس لیاتوپاکستان کو کیانقصان ہوگا؟

کابل کی جانب سے تحریک طالبان کے دہشت گردوں کی پشت پناہی کی وجہ سے پاک افغان کشیدگی میں اضافے کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے طالبان حکومت سے بگرام ایئر بیس واپس مانگ لی۔ دوسری جانب طالبان حکومت کے انکار کے بعد اب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ افغانستان پر ایک اور جنگ مسلط کر سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے نتیجے میں پاکستان کا فائدہ ہوگا یا نقصان؟ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو اس کا نقصان ہی ہو گا۔

امریکی صدر ٹرمپ نے کابل کو کھلی دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے سابق امریکی ائیر بیس واپس نہ کی تو طالبان حکومت کے ساتھ ’بہت برا‘ سلوک کیا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر ابھی فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی نہ دے رہے ہوں لیکن اس امکان کو مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب ایک رپورٹر نے  امریکی صدر سے پوچھا کہ کیا وہ دوبارہ اپنی فوج کابل بھیجنے پر غور کریں گے؟ تو ٹرمپ نے جواب دیا، کہ ’آپ کو جلد پتا چل جائے گا کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں‘۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ دنیا کو ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی سرزمین حاصل کرنے کی تازہ دھمکی کو کتنی سنجیدگی سے لینا چاہیے؟ اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ اچانک اور غیر متوقع فیصلے کرنے والے امریکی صدر نے کسی ملک کو اس طرح کی کُھلی دھمکی دی ہو۔ اس سے قبل انہوں نے پاناما کینال اور گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اب وہ بگرام میں سابق امریکی ائیر بیس کا قبضہ واپس لینا چاہتے ہیں۔ وہ حال ہی میں لندن میں برطانوی وزیراعظم کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں اپنا مطالبہ سامنے لائے۔

اگرچہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد سے بگرام پر امریکی کنٹرول کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں لیکن برطانوی وزیراعظم کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران ان کا بیان خاص اہمیت کا حامل تھا۔ امریکی صدر نے طالبان حکومت کے ساتھ معاہدے کے لیے ممکنہ سفارتی نقطہ نظر کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا، ’ہم اپنی بگرام ائیر بیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں اور ویسے بھی طالبان حکومت کو بھی ہم سے کچھ چیزوں کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اہم اڈے پر امریکی کنٹرول کے جواز کے طور پر بار بار بگرام کی چینی جوہری تنصیبات سے قربت کا حوالہ دیا۔ امریکی صدر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار بناتا ہے، بگرام کا فوجی اڈہ اس سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے‘۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ کابل سے 40 کلومیٹر شمال میں چین نے اپنا فوجی اڈہ قائم کر لیا ہے۔

یاد رہے کہ بگرام کو 1950 کی دہائی میں سوویت یونین نے تعمیر کیا تھا۔ بعد میں امریکی فوج نے اسکی توسیع کی تھی۔

بگرام کا فوجی اڈہ ایک زمانے میں امریکی قابض افواج اور ان کے اتحادیوں کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس ایئر بیس میں ایک وقت میں 10 ہزار فوجیوں کی گنجائش موجود تھی، 2021 میں دو دہائیوں پر محیط جنگ کے خاتمے کے ساتھ افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران اس اڈے کو بھی خالی کر دیا گیا تھا۔ یہ انخلا دنیا کی سب سے طاقتور فوج کی بدترین تذلیل تھی جس کے نتیجے میں طالبان دوبارہ افغانستان کے حکمران بن گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بگرام اور بقیہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا دوحہ معاہدے کے بعد عمل میں آیا جس پر ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں فروری 2020 میں دستخط ہوئے تھے۔ لیکن انہوں نے بار بار جو بائیڈن انتظامیہ پر اایک اہم ترین ایئر فیلڈ کو جلد بازی میں چھوڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ادھر امریکی صدر کی دھمکی کے باوجود کابل انتظامیہ نے افغان سرزمین پر کنٹرول کے حوالے سے کسی ممکنہ معاہدے کو سختی سے مسترد کیا ہے۔

افغان طالبان کے ایک عہدیدار نے اس معاملے پر واشنگٹن کے ساتھ بات چیت کی بازگشت کی تردید کرتے ہعئے کہا کہ ’دوطرفہ مذاکرات میں امریکا کو واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ طالبان حکومت کے لیے افغانستان کی آزادی اور علاقائی سالمیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے‘۔

افغان طالبان حکومت کے بیان میں سٹیک ہولڈرز کو یہ بھی باور کروایا گیا کہ دوحہ معاہدے کے تحت، امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ ’وہ افغانستان کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرے گا، وہ اسے طاقتنکے استعمال کی دھمکی نہیں دے گا اور نہ ہی اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے گا۔ لہٰذا ترجمان طالبان حکومت نے واشنگٹن کو اپنے عہد کی پاسداری کا مشورہ دیا۔

سینیئر صحافی زاہد حسین کہتے ہیں کہ بظاہر کابل حکومت کے انکار نے صدر ٹرمپ کی انا کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ لہذا یہ حیرت کی بات نہیں کہ اس بیان کے بعد ٹرمپ کا کابل حکومت کے لیے لہجہ اور بھی زیادہ دھمکی آمیز ہو گیا ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا ہو گا کہ طالبان کی جانب سے بگرام پر کسی معاہدے کو ٹھکرانے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کیا  کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طاقت کے استعمال کا نتیجہ افغانستان پر ایک اور حملے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے جس کے نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن پر بھی سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ یہ تمام علاقائی طاقتوں بالخصوص چین کو اپنی جانب متوجہ کرے گا۔

ٹرمپ کے تبصروں کا جواب دیتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ چین افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اس کے اپنے لوگوں کو کرنا چاہیے‘۔  انہوں نے مزید کہا کہ ’خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے اور تصادم پیدا کرنے کی حمایت نہیں کی جائے گی‘۔اگرچہ چین نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا لیکن یہ اُن پانچ ممالک میں شامل ہے جنہوں نے کابل کی عبوری انتظامیہ کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو مکمل سفیر کی سطح پر استوار کیا ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت بیجنگ افغانستان میں سب سے بڑا سرمایہ کار ہے جو بنیادی طور پر کان کنی اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں میں کام کر رہا ہے۔ ادھر پاک چین سی پیک پراجیکٹ کو افغانستان تک توسیع دینے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ زاہد حسین کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں کوئی بھی فوجی مہم جوئی، روس کو بھی تنازع میں دھکیل سکتی ہے۔ روس وہ واحد ملک ہے جس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ اگر افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت ہوتی ہے تو اس سے پاکستان براہ راست متاثر ہوگا جس کے ساتھ اس کی 2 ہزار 500 کلومیٹر کی طویل سرحد ہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں افغانستان کی گزشتہ دو جنگوں میں ایک فرنٹ لائن ریاست کے طور پر پاکستان کو بھاری قیمت چکانی پڑی جبکہ ان جنگون میں دیگر سپر پاورز بھی شامل تھیں۔ پاکستان اب بھی ان جنگوں کے اثرات بھگت رہا ہے۔ لہذا اس صورت حال میں پاکستان کو کسی بھی ممکنہ امریکی مہم جوئی سے انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے چند ماہ میں صدر ٹرمپ نے پاکستان کو دوبارہ سینے سے لگانا شروع کر رکھا ہے۔ لیکن انکی غیر متوقع شخصیت کی وجہ سے ان کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب کیا فیصلہ کر لیں۔

گلگت بلتستان میں مارخور کے شکار سے 550 کروڑ روپے کی آمدن

زاہد حسین کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ افغان طالبان حکومت کی جانب سے تحریک طالبان کے عسکریت پسند کے خلاف کسی کارروائی سے انکار کی وجہ سے پاکستان کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن افغانستان میں کسی بیرونی فوجی مداخلت سے پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوگا۔

 

Back to top button